روس میں شرحِ پیدائش کا بحران شدت اختیار کر گیا، نائب وزیرِاعظم
ماسکو (صداۓ روس)
روس کی نائب وزیرِاعظم تاتیانا گولیکووا نے ملک میں بڑھتے ہوئے آبادیاتی بحران پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس میں بچے پیدا کرنے کی عمر کی خواتین کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔ انہوں نے منگل کے روز قانون سازوں سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ جب ملک کی پہلی آبادیاتی پالیسی تشکیل دی گئی تھی، اُس وقت ۱۸ سے ۴۹ برس کی عمر کی خواتین کی تعداد ۳ کروڑ ۹۰ لاکھ سے زائد تھی، جو اب گھٹ کر ۳ کروڑ ۴۰ لاکھ رہ گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہی رجحان جاری رہا تو ۲۰۴۶ تک یہ تعداد مزید کم ہو کر صرف ۲ کروڑ ۷۰ لاکھ کے لگ بھگ رہ جائے گی۔
گولیکووا نے اس طویل المدت کمی کا سبب دوسری جنگِ عظیم کے بعد پیدا ہونے والا خلا اور ۱۹۹۰ کی دہائی کے معاشی بحران کو قرار دیا، جس کی وجہ سے تولیدی عمر کی خواتین کی آبادی بُری طرح متاثر ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ان رجحانات کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت نے ایک نیا منصوبہ “خاندان” تیار کیا ہے، جس کا مقصد ملک میں شرحِ پیدائش کو بہتر بنانا اور نوجوان خاندانوں کی کفالت کرنا ہے۔
حکومت کی جانب سے شرحِ پیدائش بڑھانے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں بچوں کی پیدائش پر مالی امداد، ماؤں کے لیے اضافی مراعات، اور سوویت دور کے “مدر ہیروئن” اعزاز کی بحالی شامل ہے، جو ان خواتین کو دیا جاتا ہے جو دس یا اس سے زیادہ بچوں کو جنم دیں یا پرورش کریں۔ اس کے علاوہ حکام ایسے رجحانات کی حوصلہ شکنی پر بھی غور کر رہے ہیں جو بچوں کے بغیر زندگی کو فروغ دیتے ہیں، جبکہ کثیر الاولاد خاندانوں کے لیے ٹیکس میں مزید رعایتیں دینے کی تجاویز بھی زیر غور ہیں۔
گولیکووا نے یہ بھی بتایا کہ ۲۰ سے ۲۹ سال کی عمر کی خواتین، جو تولیدی حوالے سے سب سے فعال طبقہ ہیں، ان کی تعداد ۲۰۲۶ میں کم ہو کر صرف ۷۱ لاکھ ۸۰ ہزار رہ جائے گی۔ البتہ ۲۰۳۸ تک اس میں بتدریج اضافہ متوقع ہے، جو ۹۲ لاکھ ۸۰ ہزار تک پہنچ سکتا ہے۔
روسی ادارہ برائے شماریات “روس اسٹیٹ” کے مطابق، ۲۰۲۴ میں ملک بھر میں صرف ۱۲ لاکھ ۲۰ ہزار بچوں کی پیدائش ہوئی، جو ۱۹۹۹ کے بعد سب سے کم سطح ہے۔ یہ شرح گزشتہ برس کے مقابلے میں ۳.۴ فیصد کم رہی۔ حکام کو توقع ہے کہ شرحِ پیدائش میں بہتری کا عمل ۲۰۲۸ سے شروع ہوگا۔