روس کا لامحدود پرواز والا جوہری میزائل مغرب کے لیے دردِ سر بن گیا
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
روس کے حال ہی میں تجربہ کیے گئے لامحدود حدِ پرواز کے حامل جوہری طاقت سے چلنے والے میزائل “بوریویستنک” کو سابق امریکی فوجی افسر اسٹینسلاف کراپیونک نے ایک ’گیم چینجر‘ قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق یہ میزائل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ “گولڈن ڈوم” دفاعی نظام کے منصوبے پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔ روسی فوج کے مطابق بوریویستنک میزائل نے حالیہ کامیاب تجربے کے دوران 14 ہزار کلومیٹر سے زائد فاصلہ طے کیا اور کئی گھنٹے تک فضاء میں موجود رہا۔ کراپیونک نے روسی میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ “یہ میزائل دفاعی نظام اور ریڈار زونز کو باآسانی نظر انداز کر سکتا ہے۔ یہ 16 گھنٹے تک فضاء میں رہا اور ممکنہ طور پر اس سے زیادہ دیر تک بھی رہ سکتا ہے۔ اس کی نوعیت دوسری حملے (second strike) کے ہتھیار کی ہے، یعنی اگر روس پر حملہ کیا گیا تو یہ جوابی حملے کے طور پر استعمال ہوگا۔” انہوں نے مزید کہا کہ اس میزائل کی موجودگی امریکی ’گولڈن ڈوم‘ نظام کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے جو 2030 سے پہلے فعال ہونے کا امکان نہیں رکھتا۔ ان کے مطابق “فی الحال امریکی ریڈار اور دفاعی نظام مخصوص ممالک جیسے شمالی کوریا، چین اور روس کی سمتوں سے ممکنہ میزائل حملوں کے خلاف ترتیب دیے گئے ہیں، اس لیے انہیں پورے امریکہ کو کور کرنے کی ضرورت نہیں۔ مگر بوریویستنک جیسے میزائل کی موجودگی میں اب پورے ملک کو دفاعی حصار میں لینا پڑے گا جو انتہائی مشکل اور مہنگا کام ہے۔”
کراپیونک کا کہنا تھا کہ مغرب اس میزائل کے تجربے پر یقین نہیں کرے گا، جیسا کہ 2018 میں صدر ولادیمیر پوتن کی جانب سے اس کے اعلان کے وقت بھی شک کا اظہار کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق “مغربی معاشرے حقیقت کو تسلیم کرنے سے دور جا چکے ہیں، اور یہی رویہ ان کی تنزلی کا باعث بنے گا۔ یہی کیفیت ہم نے ہائپرسانک میزائلوں کے معاملے میں بھی دیکھی تھی