روس کا مؤقف الاسکا سربراہی اجلاس کے بعد بھی برقرار ہے، سرگئی لاوروف

Sergey Lavrov Sergey Lavrov

روس کا مؤقف الاسکا سربراہی اجلاس کے بعد بھی برقرار ہے، سرگئی لاوروف

ماسکو (صداۓ روس)
روس نے وہی مؤقف برقرار رکھا ہے جو روسی صدر ولادیمیر پوتن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان الاسکا میں ہونے والی ملاقات کے دوران طے پانے والی تفہیمات کے مطابق تھا۔ یہ بات روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے ایک پریس کانفرنس میں کہی۔ لاوروف نے کہا میں سرکاری طور پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ روس نے اپنا مؤقف نہیں بدلا۔ ہم اب بھی اسی سمجھوتے پر قائم ہیں جو الاسکا میں صدر پوتن اور صدر ٹرمپ کے درمیان طے پایا تھا۔ اُس وقت صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ فوری جنگ بندی کے بجائے پائیدار اور دیرپا امن کی ضرورت ہے — اور ہم آج بھی اسی فارمولے پر کاربند ہیں۔ میں نے کل امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو سے بات چیت کے دوران بھی یہی مؤقف دہرایا۔ روس کے وزیرِ خارجہ کے مطابق، واشنگٹن کی جانب سے “فوری طور پر لڑائی روکنے” کے مطالبے دراصل یوکرین کے تنازع کی بنیادی وجوہات کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہیں. انہوں نے کہا جب ہم واشنگٹن سے سنتے ہیں کہ فوراً سب کچھ روک دیا جائے، بات چیت بند کر دی جائے، اور تاریخ کو فیصلہ کرنے دیا جائے — تو دراصل اس کا مطلب ہے کہ تنازع کی جڑوں کو فراموش کر دیا جائے۔ امریکی انتظامیہ، خاص طور پر صدر ٹرمپ کے دور میں، ان وجوہات کو تسلیم کر چکی تھی۔”

لاوروف نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا اس سے مراد یوکرین کا غیرجانبدار، غیرجوہری اور کسی فوجی اتحاد سے باہر رہنے والا درجہ یقینی بنانا ہے — یعنی اسے نیٹو میں شامل کرنے کی کسی بھی کوشش کو ختم کرنا۔ انہوں نے مزید کہا اس کے ساتھ ساتھ روسی اور روسی بولنے والے شہریوں پر جو نسل کشی کی جا رہی ہے، اسے ختم کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ مظالم تو صدر زیلنسکی کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی شروع ہو چکے تھے، جب کیف حکومت نے روسی اقلیت کے تمام بنیادی حقوق سلب کر لیے۔ درحقیقت، یوکرین کی اکثریت روسی زبان بولتی اور سوچتی ہے، لیکن روسی زبان کو زندگی کے ہر شعبے میں ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ یہ ایک سراسر نازی طرز کا نظام ہے۔”

Advertisement