شہباز شریف کا دو ریاستی حل کی بنیاد پر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کا خیرمقدم
وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ 20 نکاتی غزہ امن منصوبے کو خوش آئند اور بروقت قرار دیتے ہوئے اس کا بھرپور خیرمقدم کیا ہے۔ نجی ٹی وی چینلز اور عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق، وزیراعظم نے اس منصوبے کو نہ صرف غزہ میں جاری خونریزی کو روکنے کی صلاحیت رکھنے والا قرار دیا بلکہ فلسطینی عوام اور اسرائیل کے درمیان مستقبل کے امن معاہدے کی بنیاد بھی بتایا۔ یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ پریس کانفرنس میں یہ منصوبہ پیش کیا، جسے اسرائیل نے قبول کر لیا ہے مگر حماس کی جانب سے ابھی تک کوئی ردعمل نہیں آیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 29 ستمبر 2025 کو وائٹ ہاؤس میں جاری کردہ اس 20 نکاتی منصوبے میں فوری جنگ بندی، یرغمالوں کی 72 گھنٹوں میں رہائی، فلسطینی قیدیوں کے تبادلے، اسرائیلی فوج کی مرحلہ وار واپسی، حماس کی عدم شمولیت اور عارضی عبوری حکومت کی تشکیل کا مطالبہ کیا ہے۔ منصوبے کے کلیدی نکات میں شامل ہیں :
فوری جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی: اسرائیل کی جانب سے منصوبے کی قبولیت کے 72 گھنٹوں میں تمام اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی، حماس کے ارکان کو امن پسندی کی صورت میں معافی اور ہتھیار ڈالنے کی پیشکش، جبکہ انکار کی صورت میں غزہ سے محفوظ راستہ فراہم کرنا۔
غزہ کی عبوری حکومت: ایک تکنیکی اور غیر سیاسی فلسطینی کمیٹی کی تشکیل جو عوامی خدمات سنبھالے گی، جس کی نگرانی “پیس بورڈ” کرے گا جو ٹرمپ کی سربراہی میں کام کرے گا اور جس میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر جیسے بین الاقوامی رہنما شامل ہوں گے۔
انسانی امداد اور بحالی: معاہدے کی قبولیت پر فوری طور پر غزہ میں امداد کی فراہمی، انفراسٹرکچر کی بحالی (پانی، بجلی، سیوریج)، ہسپتالوں اور بیکریوں کی تعمیر نو، اور رافہ سرحد کی دونوں طرف کھلنا۔
بین الاقوامی استحکام فورس: امریکہ عرب اور عالمی شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایک عارضی “انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس” (ISF) تشکیل دے گا جو فلسطینی پولیس کو تربیت دے گی اور اردن و مصر کی مدد لے گا۔
معاشی بحالی اور دو ریاستی حل: غزہ کی بحالی کے لیے ٹرمپ کی سربراہی میں ماہرین کی ایک کمیٹی جو مشرق وسطیٰ کی “معجزاتی شہروں” کی طرز پر ترقیاتی منصوبہ بنائے گی، انٹرفیتھ ڈائیلاگ کی حوصلہ افزائی، اور فلسطینی خود ارادیت کی راہ ہموار کرنا، بشرطیکہ فلسطینی اتھارٹی اصلاحات کرے۔ منصوبہ واضح کرتا ہے کہ اسرائیل غزہ پر قبضہ یا الحاق نہیں کرے گا اور کوئی زبردستی نقل مکانی نہیں ہوگی۔
ٹرمپ نے پریس کانفرنس میں کہا، “ہم بہت قریب ہیں، حماس کو یہ قبول کر لینا چاہیے ورنہ اسرائیل کو مکمل حمایت دی جائے گی کہ کام مکمل کرے۔” نیتن یاہو نے منصوبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ غزہ کو ہمیشہ کے لیے خطرہ سے پاک کر دے گا۔ تاہم، حماس کے ترجمان محمود مرداوی نے الجزیرہ کو بتایا کہ گروپ کو ابھی تحریری منصوبہ موصول نہیں ہوا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری کردہ بیان میں کہا، “میں صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کا خیرمقدم کرتا ہوں جو غزہ کی جنگ ختم کرنے کا ضامن بن سکتا ہے۔ فلسطینی عوام اور اسرائیل کے درمیان دیرپا امن خطے میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کی بنیاد بنے گا۔” انہوں نے ذاتی طور پر فلسطینی عوام کو امن اور آزادی کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا سیاسی سمجھوتا خطے کے عوام کے لیے بہتر مواقع پیدا کرے گا۔
شریف نے ٹرمپ کی کوششوں اور خصوصی ایلچی سٹیو وٹکوف کے کردار کی بھی تعریف کی، کہتے ہوئے کہ “وٹکوف کی سفارتی کاوشیں امن قیام میں کلیدی ہیں۔” انہوں نے زور دیا کہ دیرپا امن اقوام متحدہ کی قراردادوں اور دو ریاستی حل پر عمل سے ہی ممکن ہے، اور پاکستان فلسطینی حقِ خود ارادیت کا ہمیشہ حامی رہے گا۔ یہ بیان اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے سائیڈ لائنز پر 25 ستمبر کو ٹرمپ سے ہونے والی ملاقات کے تناظر میں ہے، جہاں پاکستان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی، انڈونیشیا سمیت آٹھ مسلم ممالک کے رہنماؤں نے غزہ بحران پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
ٹرمپ نے شہباز شریف اور آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کی تعریف کرتے ہوئے کہا، “پاکستان کے وزیراعظم اور فیلڈ مارشل شروع سے ہمارے ساتھ تھے، وہ ناقابلِ فراموش اتحادی ہیں۔” انہوں نے پاکستان کو منصوبے کی 100 فیصد حمایت دینے والا قرار دیا، جو پاکستان کی بڑھتی ہوئی جغرافیائی سیاسی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ حالیہ پاک سعودی دفاعی معاہدے اور مئی 2025 کی انڈیا پاکستان جنگ بندی میں ٹرمپ کی ثالثی کے بعد یہ پیش رفت پاکستان کو مشرق وسطیٰ کی سلامتی میں مزید گہرا دھکیل رہی ہے۔
تاہم، پاکستان میں کچھ حلقوں میں تنقید بھی سامنے آئی ہے۔ سوشل میڈیا پر احتجاج کی کال دی گئی، جہاں کچھ صارفین نے اسے “صہیونی منصوبہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ حماس کو کمزور کرے گا اور قائد اعظم کے فلسطینی موقف سے انحراف ہے۔ ایک صارف نے لکھا، “شہباز اور عاصم منیر نے امریکی آقاؤں کی غلامی قبول کر لی، 7 اکتوبر کو ہالٹ کریں۔” دوسرے نے کہا، “یہ ابراہام ایکارڈز کی طرف قدم ہے، پاکستان اسرائیل تسلیم کرے گا۔”
عالمی ردعمل: امید اور شکوک
عالمی سطح پر منصوبے کا خیرمقدم ہوا ہے، مگر غزہ میں کچھ لوگ شکوک میں ہیں۔ الجزیرہ کے مطابق، قطر اور مصر جیسے ثالثی ممالک اسے مثبت سمجھ رہے ہیں، جبکہ گارڈین نے خبردار کیا کہ کلیدی نکات کی تنفیذ کی تفصیلات ناکافی ہیں۔ حماس کی عدم قبولیت کی صورت میں اسرائیل امداد کو “دہشت فری زونز” تک محدود کر سکتا ہے، جو تنازع کو طول دے سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ غزہ کو “مشرق وسطیٰ کی ریویرا” بنانے کی ٹرمپ کی پرانی خواہش کا حصہ ہے، جو فلسطینی نقل مکانی پر مبنی تھا مگر اب اسے رد کر دیا گیا ہے۔
شہباز شریف کا یہ بیان پاکستان کی فلسطینی حمایت کو برقرار رکھتے ہوئے امریکی قیادت سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش ہے، جو خطے میں استحکام کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اگر حماس قبول کر لے تو یہ دو سالہ جنگ کا خاتمہ ہو سکتا ہے، جس نے ہزاروں جانیں لی ہیں۔ تاہم، حماس کی رد کی صورت میں صورتحال مزید کشیدہ ہو سکتی ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کی حمایت سے یہ منصوبہ کامیاب ہو سکتا ہے، جو نہ صرف غزہ بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے لیے نئی امید کی کرن ہے۔ کیا یہ امن کی بنیاد بنے گا یا تنازع کو طول دے گا؟ وقت بتائے گا۔