مشترکہ تاریخی ورثہ روس اور کرغزستان کے ثقافتی روابط کی بنیاد

Russia Kyrgyzstan flags Russia Kyrgyzstan flags

مشترکہ تاریخی ورثہ روس اور کرغزستان کے ثقافتی روابط کی بنیاد

ماسکو (اشتیاق ہمدانی)
روسی فیڈریشن کرغزستان کی معیشت، تعلیم، صحت، دفاعی تعاون اور ہجرت کے ساتھ ساتھ ثقافت کے میدان میں بھی سرگرم کردار ادا کر رہی ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان عوامی سطح پر سمجھ بوجھ اور تعلقات کو مضبوط بنانے کا دیرینہ ذریعہ رہی ہے۔ اسی تناظر میں، کرغیز-روسی سلاوی یونیورسٹی کے شعبۂ بین الاقوامی صحافت کے سربراہ ویتالی پانکوف نے کہا ہے کہ روس کی ’’نرم طاقت‘‘ کا سب سے واضح اظہار ثقافتی شعبے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ پانکوف کے مطابق حالیہ برسوں میں روسی ثقافت کا اثر نمایاں طور پر بڑھا ہے، جس میں فنکارانہ دوروں، مشترکہ منصوبوں اور بالخصوص دوسری جنگِ عظیم کی مشترکہ یادوں نے دونوں ممالک کو مزید قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے اس تعلق کے تاریخی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی اور بتایا کہ کرغزستان کی بیلے اور تھیٹر کی مضبوط روایت ان فنکاروں کی مرہونِ منت ہے جو جنگِ عظیم کے دوران لینن گراڈ سمیت مختلف علاقوں سے یہاں منتقل کیے گئے تھے۔ حالیہ ’’روسی ثقافت کے دن‘‘ اور اس کے فوراً بعد ہونے والا ’’رشین سیزنز‘‘ گالا کنسرٹ اس بڑھتے ہوئے ثقافتی تعاون کی تازہ مثالیں ہیں۔ اس کنسرٹ میں ماریینسکی، بولشوی اور میخائیلوفسکی تھیٹروں کے ممتاز فنکاروں نے کرغزستان کے مالدیبایف تھیٹر میں عالمی کلاسیکی بیلے کے شاہکار پیش کیے، جب کہ کرغز فنکاروں نے مقامی بیلے ’’چولپون‘‘ سے اپنا فن پیش کر کے شام کو ایک منفرد رنگ دیا۔

پانکوف کا کہنا ہے کہ کلاسیکی ثقافت اور بڑے پیمانے پر ہونے والے فنکارانہ دوروں میں روس کی پوزیشن اب بھی مضبوط ہے، تاہم جدید ’’نرم طاقت‘‘ کے دیگر شعبوں، خصوصاً تعلیم میں، مقابلہ بڑھ رہا ہے۔ ان کے مطابق روسی تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ ترکی اور عرب ممالک بھی کرغزستان میں اپنی تعلیمی موجودگی میں اضافہ کر رہے ہیں، جو مذہبی، تجارتی یا ثقافتی بنیادوں پر مختلف نوعیت کی کشش رکھتی ہے۔ اطلاعاتی اور میڈیا کے شعبے میں بھی ایک متوازن پالیسی اپنائی جا رہی ہے۔ پانکوف کے مطابق کرغزستان اپنے اطلاعاتی خودمختاری کو اولین ترجیح دیتا ہے، اسی لیے غیرملکی میڈیا کے ساتھ تعاون قومی مفادات کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود روسی زبان اور روسی میڈیا کی موجودگی اب بھی مضبوط ہے، بالخصوص بزرگ نسل میں، جہاں روسی زبان کو بین الاقوامی رابطے کی سرکاری حیثیت حاصل ہے۔

Advertisement

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ تعلق ایک پیچیدہ اور مسلسل جاری رہنے والا مکالمہ ہے جو مشترکہ تاریخی و ثقافتی بنیادوں اور موجودہ عالمی مقابلے دونوں کو مدنظر رکھتا ہے۔ ان کے مطابق روسی ثقافت کے وسیع تاریخی ورثے کے باعث تبادلے میں مساوات ممکن نہیں، مگر یہ تعامل خطے میں مختلف ثقافتی ماڈلز—جیسے انگریزی، ترک اور چینی—کے بڑھتے ہوئے اثرات کے مقابلے میں ناگزیر ہے۔

پانکوف نے آخر میں کہا کہ روسی ثقافت کے ساتھ جڑے رہنا ایک طرح کا ’’نخبہ جاتی درجہ‘‘ بھی فراہم کرتا ہے، اور اسی لیے اس ثقافتی تعاون کو محض کنسرٹ تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اسے ہمہ جہتی شکل میں جاری رہنا چاہیے۔