اہم خبریں
تازہ ترین خبریں، باخبر تجزیے، اور عالمی حالات کی جھلک — صرف "صدائے روس" پر، جہاں ہر خبر اہم ہے!

شامی صدر کی جان کو اقتدار میں لانے والے شدت پسندوں سے ہی خطرہ

Ahmed al-Sharaa

شامی صدر کی جان کو اقتدار میں لانے والے شدت پسندوں سے ہی خطرہ

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
واشنگٹن پوسٹ کی ایک چونکا دینے والی رپورٹ کے مطابق، شام کے عبوری صدر احمد الشراٰع کو اب اُن شدت پسند گروہوں سے خطرہ لاحق ہو چکا ہے جنہوں نے پچھلی حکومت گرا کر انہیں اقتدار تک پہنچایا تھا۔ رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال کے آخر میں دمشق پر قبضہ کرنے والے عسکریت پسند گروہوں کی قیادت تحریر الشام کے ہاتھ میں تھی، جس میں ہزاروں غیر ملکی جنگجو بھی شامل تھے۔ ان میں سے بعض کا تعلق داعش اور دیگر انتہا پسند تنظیموں سے بتایا گیا ہے۔

اگرچہ الشراٰع ان گروہوں میں سے کچھ کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنا چاہتے ہیں تاکہ مغربی حمایت حاصل کر سکیں، لیکن یہ کٹر سنی جنگجو اب خود ان کے لیے ایک سنگین مسئلہ بن چکے ہیں۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ان میں سے کچھ جنگجو مارچ میں شامی ساحلی علاقوں میں علوی اقلیت کے قتل عام میں ملوث تھے، جہاں چند دنوں میں 973 عام شہریوں سمیت کم از کم 1,300 افراد مارے گئے۔ مسیحی اور دروز اقلیتوں کو بھی نئی حکومت کے بعد سے خونی فرقہ وارانہ تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، سب سے شدت پسند غیر ملکی اسلام پسندوں نے اب الشراٰع کے خلاف نفرت کا اظہار شروع کر دیا ہے، کیونکہ صدر نے شریعت نافذ نہیں کی اور وہ مبینہ طور پر امریکہ اور ترکی کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں تاکہ شام میں موجود انتہا پسند گروہوں کو نشانہ بنایا جا سکے۔

رواں ماہ کے اوائل میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے الشراٰع سے ملاقات کی اور شام پر عائد پرانے اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کیا، جن میں سے زیادہ تر بشار الاسد کے دور میں لگائی گئی تھیں۔

الشراٰع نے ٹرمپ کے فیصلے کو تاریخی اور دلیرانہ قدم” قرار دیا جو کہ “عوام کی مشکلات کو کم کرے گا، ان کی نئی زندگی کی بنیاد رکھے گا، اور خطے میں استحکام پیدا کرے گا۔ تاہم، ٹرمپ-الشراٰع ملاقات کے فوری بعد، سلفی جہاد کے معروف نظریہ ساز ابو محمد المقدسی نے الشراٰع کو “کافر” قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف فتویٰ جاری کر دیا۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے گزشتہ ہفتے خبردار کیا کہ شام اب بھی شدت پسندوں کی آماجگاہ ہے اور ملک کسی بھی وقت انتشار اور مکمل خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ “یہ چند ہفتے کا معاملہ ہے، مہینوں کا نہیں۔” یہ صورتحال نہ صرف شام بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے لیے ایک سنگین خطرہ بن سکتی ہے، جہاں استحکام کی تمام امیدیں دوبارہ خونریزی میں بدلنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔

Share it :