شاہ نواز سیال
سندھ طاس معاہدہ (Indus Waters Treaty) ایک تاریخی معاہدہ ہےجو 1960 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ورلڈ بینک کی ثالثی میں طے پایا-اس معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دریائے سندھ کے پانی کے استعمال کے حقوق کو طے کرنا تھاجو دونوں ممالک کے لیے انتہائی اہم ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کو دریائے سندھ، جہلم اور چناب کے پانی کا مکمل اختیار حاصل ہےجبکہ بھارت کو بیاس، راوی اور ستلج کے پانی کا مکمل حق دیا گیا اس معاہدے کے ذریعے دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے پانی کے حقوق کا احترام کرنے کی بات کی اور پانی کی تقسیم پر کسی بھی تنازعہ سے بچنے کی کوشش کی یہ معاہدہ دنیا کے اہم ترین آبی معاہدوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جس کے ذریعے لاکھوں افراد کو پینے کا پانی کھیتوں میں آبپاشی اور توانائی کے حصول کے لیے دریا کے پانی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ کچھ سالوں میں بھارت نے پاکستان پر متعدد بار الزام تراشی کی ہے خصوصاً دہشت گردی کے حوالے سے جبکہ پاکستان خود بہت عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے الزامات کی بنیاد پر بھارت نے پاکستان کے خلاف کئی بار سفارتی اقدامات کیے جیسے کہ سندھ طاس معاہدے کو نئی شکل دینے کی کوششیں اور پانی کے مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھانے کی باتیں کیں۔
بھارت کا پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگانا، بالخصوص 2001 میں پارلیمنٹ پر حملہ اور 2008 میں ممبئی حملوں کے بعد عالمی سطح پر ایک متنازعہ موضوع بن چکا ہے۔
بھارت نے کئی مرتبہ پاکستان پر یہ الزام لگایا کہ وہ سرحد پار دہشت گرد گروپوں کی معاونت کرتا ہے مگر بھارت کی طرف سے ان الزامات کے کبھی بھی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیے گئے اس کے باوجود بھارت نے پاکستان کے خلاف فوجی اور سفارتی اقدامات اٹھانے شروع کیے۔
پاکستان نے ہمیشہ ان الزامات کو مسترد کیا ہے اور یہ موقف اختیار کیا ہے کہ بھارتی حکومت اپنے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان کو بدنام کرتی ہے۔ بھارت کے بغیر کسی ثبوت کے الزامات لگا کر پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کو نقصان پہنچانے مسلسل کوشش کرتا رہتا ہے اور یہ سفارتی محاذ پر بھارت کی ناکام حکمت عملی کا ثبوت ہے
بھارت کی سفارتی حکمت عملی میں سب سے بڑی خامی اس کا ہمیشہ دوسرے ممالک پر دباؤ ڈالنا ہے بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے۔ بھارت نے کئی مرتبہ پاکستان پر الزام لگایا کہ وہ دہشت گرد گروپوں کو پناہ دیتا ہے لیکن جب عالمی سطح پر ان الزامات کی تحقیقات کی گئیں تو بھارت کے پاس ان الزامات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس مواد موجود نہیں تھا ایسے الزامات نہ صرف پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کو متاثر کرتے ہیں بلکہ بھارت کی اپنی ساکھ کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔
اس کے علاوہ بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کے خلاف کیے جانے والے اقدامات جیسے کہ کبھی اس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کرتا ہے تو کبھی از سر نو دیکھنے کی دھمکیاں، اس بات کی غماز ہیں کہ بھارت عالمی سطح پر اپنے مفادات کو حاصل کرنے کے لیے غیر ضروری تنازعات کو ہوا دیتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے بار بار یہ کہا گیا کہ معاہدے کی خلاف ورزی سے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان تنازعہ بڑھ سکتا ہےبلکہ اس سے دونوں ملکوں کے عوام کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گی
بھارت کی الزام تراشیاں اور سفارتی حکمت عملی میں غلطیاں دونوں ممالک کے تعلقات کو پیچیدہ بنا رہی ہیں بھارت کا پاکستان پر الزام لگانا اور اس کے بعد سفارتی سطح پر اس بات کو آگے بڑھانا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بھارت اپنے داخلی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے اس طرح کی پالیسی اختیار کرتا ہے لیکن بغیر ثبوت کے الزامات کی بنیاد پر کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات کو مزید پیچیدہ بنانا ایک خطرناک حکمت عملی ہے جو نہ صرف بھارت کی ساکھ کو متاثر کرتا ہے بلکہ عالمی سطح پر اس کی سفارتی حیثیت کو بھی کمزور کرتا ہے۔
سندھ طاس معاہدے جیسے مسائل پر بھارت کی طرف سے کی جانے والی بلاجواز الزام تراشیوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر امن اور تعاون کی جگہ پر محض سیاسی مفادات کی خاطر کشیدگی بڑھانا دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں ہے اس کے بجائے بھارت کو پاکستان کے ساتھ مل کر سندھ طاس معاہدے پر قائم رہتے ہوئے پانی کے مسئلے پر تعاون کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دونوں ممالک کے عوام کو بہتر مستقبل فراہم کیا جا سکے۔