دوسری جنگ عظیم کی “نائٹ وچز” سوویت خواتین پائلٹوں کا گروپ
اشتیاق ہمدانی
دوسری جنگ عظیم میں جب دنیا بھر کے محاذوں پر مرد فوجی برسرِ پیکار تھے، سوویت یونین نے ایک حیران کن اور تاریخی قدم اٹھایا: خواتین کو بھی جنگی میدان میں ایک بھرپور کردار دیا گیا۔ انہی میں شامل تھیں وہ خواتین پائلٹس جنہوں نے جرمن افواج کے لیے خوف کی علامت بننے والا لقب حاصل کیا — “نائٹ وچز”
“نائٹ وچز” کون تھیں؟ یہ نام دراصل جرمن فوجیوں نے ان خواتین کو دیا، کیونکہ وہ رات کی تاریکی میں خاموشی سے آتی تھیں اور بم گرا کر غائب ہو جاتی تھیں، جیسے کوئی چڑیل خاموشی سے آ کر حملہ کرے۔ ان کی یونٹ کو رسمی طور پر 588th نائٹ بمبار ریجیمیںٹ کہا جاتا تھا۔ خواتین کی یہ خاص یونٹ کب بنی؟ یہ یونٹ 1941 میں سوویت ایوی ایٹر اور سوشلسٹ ہیرو مارینا راسکووا کی کوششوں سے تشکیل دی گئی۔ یہ تاریخ کی پہلی مکمل خواتین پر مشتمل فوجی ایوی ایشن یونٹ تھی، جس میں پائلٹ، نیویگیٹر، مکینک، اور گراؤنڈ اسٹاف — سب خواتین تھیں۔ نائٹ وچز نے جنگی مشنوں کے لیے پو-٢ بپلانے استعمال کیا — ایک لکڑی اور کپڑے سے بنا، سست رفتار طیارہ جو اصل میں تربیتی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا تھا لیکن اس کی سادگی ہی ان کا ہتھیار بنی، کیونکہ یہ ریڈار پر نہیں آتا تھا اور اس کی آواز بھی بہت کم تھی۔
یہ پائلٹس ایک رات میں 8 سے 10 مشن انجام دیتی تھیں، اور ہر مشن پر وہ دشمن کے خیموں، اسلحہ ڈپو اور دیگر اہم تنصیبات کو نشانہ بناتی تھیں۔ خطرناک مشن، بے مثال حوصلہ پو-٢ بپلانے طیارے جدید جنگی طیاروں کے مقابلے میں نہایت کمزور تھے، لیکن ان خواتین نے تقریباً 23,000 سے زائد بمباری مشن انجام دیے۔ ان کی جرأت، مہارت اور استقامت نے جرمن فوجیوں کو اس قدر خوفزدہ کر دیا کہ انہیں “نائٹ وچز” کا لقب دے دیا۔ ان پائلٹس میں سے 23 خواتین کو سوویت یونین کا سب سے بڑا فوجی اعزاز “ہیرو آف دی سوویت یونین” دیا گیا۔ ان کی داستان آج بھی دنیا بھر میں خواتین کی شجاعت، مساوات اور حب الوطنی کی ایک علامت سمجھی جاتی ہے۔
نائٹ وچز کی کہانی نہ صرف جنگی تاریخ کا ایک اہم باب ہے بلکہ یہ اس بات کی روشن مثال ہے کہ عورتیں اگر موقع پائیں تو وہ ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ، بلکہ کئی بار ان سے آگے بڑھ کر بھی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ان بہادر خواتین نے یہ ثابت کر دیا کہ جرأت، حوصلہ اور حب الوطنی کی کوئی صنف نہیں ہوتی۔