شاہ نواز سیال
سیون سسٹر اسٹیٹس (Seven Sister States) بھارت کے شمال مشرق میں واقع ہے جن میں آسام، اروناچل پردیش، ناگالینڈ، میگھالیہ، منی پور، تریپورہ اور سکم شامل ہیں یہ ریاستیں بھارت کے شمال مشرقی کنارے پر واقع ہیں اور ان کا جغرافیائی محل وقوع بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ چین، بنگلہ دیش ،میانمار کے ساتھ سرحدیں ملتی ہیں۔
سیون سسٹر اسٹیٹس کی مختلف قبائل اور نسلی گروہ بھارت کی دیگر ریاستوں سے ثقافتی، لسانی اور نسلی طور پر مختلف ہیں
یہ علاقے بھارت کے دیگر حصوں کی نسبت اقتصادی طور پر پیچھے ہیں سیون سسٹر اسٹیٹس میں غربت اور بے روزگاری کی سطح بہت زیادہ ہے۔
بھارت کے شمال مشرق میں واقع کئی علاقوں میں تنازعات شدت اختیار کرچکے ہیں جن میں علیحدگی پسند تحریکیں اور مقامی قوم پرستی کی تحریکیں شامل ہیں ان تحریکوں کا مقصد سیون سسٹر اسٹیٹس کو بھارتی یونین سے آزاد کر کے خود مختار ریاستوں کا قیام ہے۔
پاکستان کو سیون سسٹر اسٹیٹس کے معاملے میں بھارتی حکومت کی اندرونی مسائل کا فائدہ اٹھانے کے کئی مواقع موجود ہیں-
پاکستان عالمی سطح پر بھارتی حکومتی پالیسیوں کی مخالفت کر سکتا ہے اور ان کے نسلی اور ثقافتی امتیاز کے خلاف آواز اٹھا سکتا ہے سیون سسٹر اسٹیٹس میں علیحدگی پسند تحریکوں کو پاکستانی حمایت دے کر بھارتی حکومت پر دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے خاص طور پر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز میں اس معاملے کو اٹھایا جا سکتا ہے۔
پاکستان سیون سسٹر اسٹیٹس کے مقامی لوگوں کو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی ترغیب دے سکتا ہے اور ان کی سیاسی اور اقتصادی خود مختاری کی حمایت کر سکتا ہے-
اگر پاکستان سیون سسٹر اسٹیٹس کی علیحدگی پسند تحریکوں کی حمایت کرتا ہے تو یہ بھارت کے لیے ایک نیا چیلنج پیدا کر سکتا ہے۔ بھارت کی مشرقی سرحد پر نیا تنازعہ اور فوجی جھڑپوں کا آغاز بھارت کی فوجی اور اقتصادی صلاحیتوں پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔
سیون سسٹر اسٹیٹس کی ثقافتی اور نسلی تفریق بھارتی حکومت کے لیے ایک پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔ پاکستان کو اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سفارتی سطح پر بھارت کی اندرونی مشکلات کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
تقسیم ہند کے بعد سے یہاں علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہے ہیں یہ ریاستیں برطانوی راج کے دوران بھی الگ تھلگ رہی ہیں اور جب برصغیر تقسیم ہوا تو ان ریاستوں کی انتظامی حیثیت میں بھی بے شمار چیلنجز سامنے آئے تقسیم کے بعد ان سات ریاستوں میں مختلف نسلی گروہ نے اپنی آزادی اور اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کا آغاز کیا کیونکہ ان کی زبان، ثقافت، اور شناخت کو ہندوستان میں خطرہ محسوس ہونے لگا تھا جس کی وجہ سے مختلف آزادی پسند تحریکوں اور گروہوں نے سر اٹھایا کہ انہیں ہندوستان کے مرکزی حکومتی ادارے زبان ،ثقافت ،شناخت اور مذہبی لحاظ سے نظرانداز کر رہےہیں اور ان ریاستوں میں معاشی پسماندگی، سیاسی حقوق کا فقدان، اور قدرتی وسائل کی لوٹ مار شامل ہے اگر ہم سیون سسٹر اسٹیٹ کی بات کریں تو سب سے پہلے بھارتی ریاست آسام ہے جہاں علیحدگی پسند تحریکیں سیاسی، سماجی، اقتصادی، اور ثقافتی حقوق حاصل کرنے کے لیے عرصہ دراز سے چل رہی ہیں آسام کے لوگوں کے خدو خال بنگلہ دیش کے لوگوں کے خدو خال سے ملتے ہیں آ سام کے مقامی لوگ اپنی ثقافتی، لسانی اور نسلی شناخت کی حفاظت چاہتے ہیں آسام میں مختلف نسلی گروہ، جیسے کہ آسامیز، بودو، بنگالی اور دیگر موجود ہیں اور یہ گروہ اپنی شناخت کے حوالے سے پریشانی کا سامنا کر رہے ہیں آسامیز بولنے والے لوگ اپنی زبان اور ثقافت کی حفاظت کے لئے علیحدگی پسند تحریکوں میں شامل رہے ہیں۔
آسام میں مسلمان اور غیر مسلموں کے درمیان مذہبی فرقہ واریت بھی علیحدگی کی تحریک کو بڑھاوا دینے کا سبب بنی ہےخاص طور پر بنگالی مسلمانوں کی آسام میں بڑی تعداد نے مقامی آسامیز کمیونٹی کو تشویش میں ڈال دیا ہے جس کا نتیجہ علیحدگی پسند تحریکوں کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
آسام معاہدہ 1985 میں آسام کے علیحدگی پسندوں اور بھارتی حکومت کے درمیان طے پایا تھا جس میں آسام کے مقامی لوگوں کے حقوق کی حفاظت کی یقین دہانی کرائی گئی تھی تاہم اس معاہدے پر عملدرآمد نہ ہونے اور مقامی افراد کے حقوق کی خلاف ورزیوں نے آسام میں علیحدگی پسند تحریکوں کو طاقتور بنادیا ہے۔
آسام قدرتی وسائل سے مالا مال ریاست ہے جیساکہ تیل، چائے اور جڑی بوٹیاں بہت بڑی مقدار میں موجود ہیں لیکن ان وسائل کا فائدہ آسام کے مقامی افراد کے بجائے دیگر ریاستوں کے افراد کو پہنچا یا جارہا ہے یہ وسائل آسام کی ترقی کے لئے استعمال ہونے کے بجائے دیگر ریاستوں میں منتقل ہو رہے ہیں جس سے مقامی لوگوں میں احساسِ محرومی پیدا ہوا ہے۔
آسام میں آسامیز نسلی گروہ کے افراد کی سوچ میں دوسرے نسلی گروہوں کے حوالے سے نسل پرستی کی گہری لکیریں موجود ہیں اس کے نتیجے میں مقامی لوگوں کا یہ احساس ہے کہ وہ اپنے وطن میں اجنبی بن گئے ہیں، اور ان کی پہچان اور وسائل کو دیگر گروہ چھین رہے ہیں۔
آسام میں بھارتی حکومت کی طرف سے کیے جانے والے بعض اقدامات، جیسے کہ آئین کی دفعات، معاہدوں کی خلاف ورزی اور وسائل کی تقسیم میں عدم مساوات جیسے عناصر شامل ہیں ۔
آسام میں ان تحریکوں کا مقصد ثقافتی، لسانی، اقتصادی، اور سیاسی شناخت کو حاصل کرنا ہے یہاں کے مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ ہم اپنی شناخت، وسائل اور حقوق کی حفاظت کے لئے آزادی چاہتے ہیں-
سیون سسٹر اسٹیٹ کی دوسری
ریاست اروناچل پردیش ہے اروناچل پردیش کے لوگوں کے خدو خال چین کے لوگوں کے خدو خال سے ملتے جلتے ہیں اروناچل پردیش بھارت کے شمال مشرق میں واقع ہے جن کی سرحدیں چین، برونائی اور میانمار کے ساتھ ملتی ہیں اس ریاست کا جغرافیائی محل وقوع نہایت اہمیت کا حامل ہے یہاں کے لوگ مختلف قوموں، زبانوں اور مذہبوں میں منقسم ہیں جن میں سب سے زیادہ آدی، نیشی اور دیگر قبائل پر مشتمل ہے۔
اروناچل پردیش میں علیحدگی پسند تحریکوں کی مختلف وجوہات ہیں اروناچل پردیش میں مختلف نسلی گروہ اور قبائل آباد ہیں جن کی زبان، رسم و رواج اور ثقافت بھارت کے دیگر حصوں سے مختلف ہے یہ تنوع بعض اوقات مقامی سطح پر علیحدگی کی تحریکوں کو ہوا دیتا ہے۔
مقامی افراد اکثر بھارتی حکومت کی پالیسیوں سے ناخوش دکھائی دیتے ہیں جنہیں وہ مقامی ثقافت اور روایات کے مطابق نہیں سمجھتے یا ان کے مطابق نہیں دیکھتے بھارت کے زیر انتظام ریاست اروناچل پردیش چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ کا شکار ہے چین نے اس علاقے کو تبت کا حصہ سمجھتا ہے۔
اروناچل پردیش ایک پسماندہ ریاست ہے جہاں بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے اور ترقی کے لیے درکار وسائل کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہے مقامی لوگ اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ ان کی ریاست کو ترقی کے لیے مناسب وسائل فراہم نہیں کیے جاتے۔
اروناچل پردیش کے لوگ بھارتی حکومت کے مختلف اقدامات سے مایوس دکھائی دیتے ہیں
بھارتی حکومت کی جانب سے ریاستی سطح پر کم خودمختاری اور مقامی حقوق کی کمی لوگوں کے تحفظات میں اضافہ کرتی ہے۔
ریاست کا بیشتر حصہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے جہاں بلند و بالا پہاڑ، گھنے جنگلات اور ندیوں کا جال موجود ہے۔
اروناچل پردیش کے اندر مختلف دریا بہتے ہیں جن میں سب سے اہم برہمپوترہ دریا ہے جو ریاست کے وسط سے گزرتا ہے۔
اروناچل پردیش میں قدرتی وسائل کی فراوانی ہے جیسا کہ جنگلات، معدنیات اور قدرتی وسائل جیسے پانی کی طاقت (ہائیڈرو پاور)۔
سیون سسٹر اسٹیٹ کی تیسری ریاست ناگالینڈ ہے جو بھارت کے شمال مشرق میں واقع ہے جہاں کی مختلف مقامی برادریاں اور قبائل بھارتی حکومت سے علیحدگی کا طویل عرصے سے مطالبہ کر رہے ہیں علیحدگی کی کئی وجوہات ہیں-
ناگالینڈ کے لوگ مختلف قبائل اور نسلی گروپوں پر مشتمل ہیں ان کی زبان، رسم و رواج، مذہب اور ثقافت بھارت کی دیگر ریاستوں سے مختلف ہے بھارتی حکومت کی پالیسیوں کو مقامی ثقافت سے ہم آہنگ نہیں سمجھا جاتا جس کی وجہ سے علیحدگی پسند تحریکیں جنم لے رہی ہیں۔
ناگالینڈ ریاست میں بہت زیادہ غربت اور معاشی پسماندگی ہے مقامی لوگ کا یہ خیال ہے کہ بھارتی حکومت نے ریاست میں سرمایہ کاری اور ترقی کے منصوبوں پر مناسب توجہ نہیں دی۔ حکومت کی طرف سے وسائل کی عدم فراہمی اور ترقی کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے ناراضگی پیدا ہوئی ہے۔
ناگالینڈ میں کئی دہائیوں سے احتجاجی مظاہرے اور علیحدگی پسند تحریکیں سرگرم ہیں بھارتی حکومت نے اس احتجاجی مظاہروں کو دبانے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال کیا ہے جس کے نتیجے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی واقع ہوئی ہیں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج کی موجودگی اور ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں نے علیحدگی پسند تحریکوں کو جنم دیا ہے
ناگالینڈ کے عوام کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ انہیں زیادہ خود مختاری دی جائے تاکہ وہ اپنے علاقے کے معاملات کو بہتر طریقے سے چلا سکیں بھارتی حکومت کی طرف سے زیادہ مداخلت ان کی آزادی اور خود مختاری کے لیے خطرہ ہے۔
ناگالینڈ کے علیحدگی پسند تحریکوں کو دیگر شمال مشرقی ریاستوں کی علیحدگی پسند تحریکوں کی حمایت بھی حاصل رہی ہے جس نے ان تحریکوں کو مزید تقویت دی ہے ان تمام علاقوں کی مختلف قومیتوں کی الگ شناخت ہے جو بھارت کی مرکزی حکومت کے ساتھ مربوط نہیں ہیں۔
ناگالینڈ کی علیحدگی پسند تحریک کی تاریخ طویل ہے۔ 1950 کی دہائی میں نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالینڈ (NSCN) نے علیحدگی کی تحریک کا آغاز کیا تھا ان کا مقصد ایک آزاد ناگالینڈ کا قیام تھا جہاں ناگالینڈ کے مقامی لوگوں کی ثقافت اور شناخت کو مکمل طور پر تحفظ حاصل ہو۔
سیون سسٹر اسٹیٹ کی چوتھی
ریاست منی پور ہے جو بھارت کے شمال مشرق میں واقع ہے ریاست منی پور کے لوگوں کے خدو خال میانمار کے لوگوں سے ملتے جلتے ہیں یہ ریاست اپنی منفرد ثقافت، نسلی شناخت اور تاریخ کے حوالے سے مشہور ہے اس ریاست میں علیحدگی پسند تحریکوں کی تاریخ کافی طویل ہے جو مختلف وجوہات کی بنا پر بھارتی حکومت کے خلاف اُٹھتی رہی ہے منی پور کے لوگوں کے تحفظات اور علیحدگی کی وجوہات کا جائزہ لینے کے لئے چند اہم پہلوؤں کو دیکھنا نہایت ضروری ہے-
منی پور کے لوگ اپنے آپ کو بھارتی ثقافت سے مختلف سمجھتے ہیں ان کی ثقافت، زبان، مذہب اور روایات بھارتی لوگوں سے مختلف ہیں منی پور میں زیادہ تر لوگ میتی (Meitei) قوم سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ باقی آبادی مختلف قبائل پر مشتمل ہےیہ قبائل اپنے علاقوں میں زیادہ خودمختاری چاہتے ہیں اور وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ بھارتی حکومت ہمیں ثقافتی، نسلی، اور مذہبی حقوق کی آزادی دے ۔
منی پور کی آزادی کی تحریک اس ریاست کے اندر مختلف علیحدگی پسند گروپوں کی صورت میں چل رہی ہے یہ تحریکیں بھارتی حکومت کے خلاف مسلسل اقدامات کر رہی ہیں ان تحریکوں کا مقصد منی پور کو بھارت سے علیحدہ کر کے ایک آزاد ریاست بنانا ہےان تحریکوں میں اہم گروپوں میں “منی پور پیپلز لبریشن فرنٹ” (MPLF) اور “نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناغالینڈ” (NSCN) شامل ہیں جو منی پور کی آزادی کے لئے لڑ رہے ہیں۔
منی پور میں بھارتی فوج کی موجودگی اور فوجی آپریشنز نے مقامی لوگوں کے درمیان شدید ناراضگی پیدا کی ہے بھارتی فوج نے اس علاقے میں کئی برسوں سے احتجاجی تحریکوں کو روکنے کے لئے مختلف طرح کے فوجی آپریشنز کیے ہیں جس کے نتیجے میں شہری آزادیوں کی خلاف ورزیاں، انسانی حقوق کی پامالیاں، اور معصوم شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ “افسپا” (AFSPA) جیسے قوانین نے فوج کو غیر معمولی اختیارات دیے ہیں جس کے سبب مقامی عوام کی شکایات بڑھ گئی ہیں-
منی پور بھارت کی ایک پسماندہ ریاست ہےجہاں تعلیم، صحت اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
معاشی ترقی اور بنیادی سہولتوں کے فقدان نے علیحدگی پسند گروپوں کو تقویت دی ہے جو سمجھتے ہیں کہ منی پور کو خود مختاری دینے سے یہاں کے وسائل اور ترقی کے حق میں بہتری آئے گی۔
منی پور ایک ایسی ریاست ہے جس کی سرحد میانمار (برما) کے قریب واقع ہے ۔
بھارتی حکومت کی طرف سے منی پور کے مسئلے کے حل کے لئے کوئی مؤثر سیاسی یا سماجی حکمت عملی تیار نہیں کی گئی علیحدگی پسند گروہ بنیادی طور پر اپنی ریاستی خودمختاری اور آزادی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں نہ کہ محض حکومتی اصلاحات کی خواہش رکھتے ہیں۔
منی پور میں بھی کئی علیحدگی پسند گروہ سرگرم ہیں جن کا مقصد ریاست کی آزادی یا خودمختاری ہے۔ “منی پور لبور کنیگ” اور “آل منی پور نیشنل سوشلسٹ آرگنائزیشن” جیسی تنظیمیں اس مقصد کے لئے کافی عرصے سے لڑ رہی ہیں۔
سیون سسٹر اسٹیٹ کی پانچویں ریاست میگھالیہ ہے یہ ریاست بھارت کے شمال مشرق میں واقع ہے اس ریاست میگھالیہ کے لوگوں کے خدو خال میانمار کے لوگوں سے ملتے جلتے ہیں ریاست میگھالیہ میں علیحدگی پسند تحریکیں اور بھارتی حکومت کے خلاف بڑھتے ہوئے مقامی افراد کے تحفظات کئی طرح کے سوالات کو جنم دے رہے ہیں میگھالیہ میں علیحدگی پسند تحریکوں کی تاریخ اور مقامی افراد کے بھارتی حکومت کے خلاف بڑھتے ہوئے تحفظات کی وجوہات کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں مختلف سیاسی، ثقافتی، اور سماجی پہلوؤں کو دیکھنا ضروری ہے۔
میگھالیہ کا ثقافتی اور نسلی پس منظر بھارتی ثقافت سے بہت مختلف ہے یہاں کی اکثریتی آبادی قبائلی نسلوں پر مشتمل ہے جن میں خاسی (Khasi)، گارو (Garo) اور جاينتیا (Jaintia) قبائل شامل ہیں ان قبائل کا اپنا علیحدہ کلچر، زبان اور روایات ہیں جو بھارتی ثقافت سے مختلف ہیں مقامی لوگ اپنے ثقافتی اور نسلی تشخص کو برقرار رکھنے کے لئے علیحدگی پسند تحریکوں کی حمایت کرتے ہیں۔
میگھالیہ میں آزادی کی تحریکیں اور علیحدگی پسند گروہ تاریخ میں موجود رہے ہیں جو ریاست کو بھارت سے علیحدہ کر کے ایک خود مختار ریاست بنانا چاہتے ہیں ان تحریکوں میں اہم گروہ “خاسی نیشنل ڈیمنڈ کونسل” (KNDC) اور “خاسی اسٹوڈنٹس یونین” (KSU) شامل ہیں ان گروپوں کا دعویٰ ہے کہ میگھالیہ کے لوگ اپنی ثقافت، زمین اور وسائل کے تحفظ کے لیے زیادہ خودمختاری چاہتے ہیں۔
میگھالیہ میں بھارتی فوج اور سیکیورٹی فورسز کی موجودگی مقامی لوگوں کے لئے ایک اہم مسئلہ ہے جیسے کہ دوسرے شمال مشرقی ریاستوں میں میگھالیہ میں بھی بھارتی فوج نے احتجاجی مظاہروں کے خلاف کارروائیاں کرنے کے لئے مختلف طرح کے فوجی آپریشنز کیے ہیں جس کے نتیجے میں مقامی عوام میں اس بات کی شکایتیں بڑھ گئی ہیں کہ بھارتی فوج کا رویہ بے رحمانہ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مبنی ہے۔
“افسپا” (AFSPA) جیسے قوانین جو فوج کو اضافی اختیارات دیتے ہیں جنہوں نے بھی مقامی لوگوں میں نارضگی پیدا کی ہے بھارتی فوج کی طرف سے ہونے والی گرفتاریوں، جبری گمشدگیوں اور مقامی افراد پر تشدد کے واقعات نے میگھالیہ کے لوگوں کے دلوں میں حکومت کے خلاف شدید غصہ پیدا کیا ہے۔
میگھالیہ بھارت کی ایک پسماندہ ریاست ہے جہاں ترقی کی رفتار دیگر ریاستوں کے مقابلے میں سست ہے مقامی لوگ محسوس کرتے ہیں کہ بھارتی حکومت نے اس ریاست کی ترقی کے لئے خاطر خواہ سرمایہ کاری نہیں کی، تعلیم، صحت، سڑکوں کی حالت اور دیگر بنیادی سہولتوں کی کمی نے مقامی افراد کے دلوں میں حکومت کے خلاف شکایات پیدا کی ہیں۔
میگھالیہ میں علیحدگی پسند گروپوں کی موجودگی کی وجہ سے یہاں شورش اور دہشت گردی کے واقعات بھی بڑھ چکے ہیں بعض علیحدگی پسند گروہ بھارتی حکومت کے خلاف اپنے احتجاج کے طور پر حملے کرتے ہیں ان حملوں میں بھارتی سیکیورٹی فورسز اور مقامی عوام دونوں نشانہ بنتے ہیں جس سے تشویش اور بدگمانی کی فضا پیدا ہو گئی ہے۔
میگھالیہ کا جغرافیائی مقام بھی اس ریاست کی پیچیدگیوں میں اضافے کا سبب بن رہا ہے یہ ریاست بھارت کے شمال مشرقی حصے میں واقع ہے اور اس کی سرحدیں بین الاقوامی سرحدوں سے جڑی ہوئی ہیں خاص طور پر میانمار کے ساتھ۔ اس علاقے میں جغرافیائی، نسلی اور ثقافتی طور پر ہم آہنگ قبائل موجود ہںں جو خود کو بھارت کے مرکزی دھارے سے الگ سمجھتے ہیں ۔
میگھالیہ میں سیاسی طور پر بھی عدم استحکام رہا ہےجہاں مرکزی حکومت کے سیاسی فیصلوں اور مقامی حکومتوں کے اختلافات نے ریاست کی ترقی میں رکاوٹ ڈالی ہے مقامی سیاسی جماعتیں اور گروہ اکثر حکومت کی پالیسیوں پر سوال اٹھاتے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ بھارتی حکومت ان کی ریاست کی ترقی اور خودمختاری کی ضرورتوں کو سمجھنے میں ناکام رہی ہے۔
میگھالیہ میں مقامی عوام کے بھارتی حکومت کے خلاف تحفظات کا سب سے بڑا سبب ان کے حقوق کا نظر انداز کرنا اور حکومت کی طرف سے فراہم کی جانے والی خدمات کی کمی ہےحکومت کی پالیسیوں میں مقامی قبائل کی ضروریات کو اہمیت نہ دینا اور ان کے ثقافتی تشخص کا احترام نہ کرنا علیحدگی پسند تحریکوں کو بڑھاوا دیتا ہے۔
میگھالیہ میں علیحدگی پسند تحریکوں اور بھارتی حکومت کے خلاف مقامی عوام کے تحفظات کا ایک گہرا تعلق ثقافتی، سیاسی اور معاشی عوامل سے ہے ریاست میں بھارتی فوج کی موجودگی، معاشی پسماندگی اور مقامی قبائل کے حقوق کا تحفظ نہ ہونا ان تمام مسائل کا باعث ہے اگر حکومت نے میگھالیہ کی ترقی اور مقامی لوگوں کے حقوق کے لئے مؤثر اقدامات نہ کیے تو یہ مسئلہ مزید سنگین ہو سکتا ہے۔
سیون سسٹر اسٹیٹ کی چھٹی ریاست تریپورہ بھارت کے شمال مشرق میں واقع ہے ریاست تریپورہ کے لوگوں کے خدو خال بنگلہ دیش کے لوگوں کے خدو خال سے ملتے جلتے ہیں ریاست تریپورہ کی علیحدگی پسند تحریکوں اور مقامی لوگوں کے تحفظات نے بھارتی حکومت کے لیے کئی طرح کے چلینجز پیدا کردیے ہیں تریپورہ کا جغرافیائی مقام اس کی نسلی ساخت اور بھارتی حکومت کے ساتھ تاریخی تعلقات نے یہاں علیحدگی پسند تحریکوں کو جنم دیا ہے اس ریاست میں بھارتی فوج کی موجودگی اور تشدد کی شکایات بھی بہت زیادہ ہیں۔
تریپورہ کی آبادی مختلف نسلی گروپوں پر مشتمل ہے جن میں تریپوری (Tripuri) قوم جو ریاست کے اصل باشندے ہیں اور بنگالی مہاجرین شامل ہیں بنگالی مہاجرین کا تعلق ان علاقوں سے ہے جو بھارت کے دیگر حصوں سے ہجرت کرکے تریپورہ آئے تھے۔ 1947 میں تقسیم ہند کے بعد تریپورہ میں بنگالیوں کی آمد اور ان کی تعداد میں اضافہ ہوا جس کے باعث مقامی تریپوری باشندوں میں احساسِ اجنبیت اور تشویش پیدا ہوئی۔
مقامی تریپوری لوگوں کا ماننا ہے کہ ان کی زمینوں اور وسائل پر مہاجرین کا قبضہ بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ان کی ثقافت اور تشخص خطرے میں ہے یہ اختلافات اور تنازعات کبھی کبھار علیحدگی پسند تحریکوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
تریپورہ میں علیحدگی پسند تحریک کی ایک طویل تاریخ رہی ہے خاص طور پر تریپورہ پیپلز فرنٹ (TPF) اور تریپورہ نیشنل لبریشن فرنٹ (TNLF) جیسے گروپوں کی طرف سے جن کا مطالبہ تھا کہ تریپورہ کو بھارت سے آزاد کر کے ایک خودمختار ریاست بنایا جائے ان گروپوں کا دعویٰ ہے کہ تریپورہ کے اصل باشندے (تریپوری) اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے جد وجہد کر رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ریاست کے وسائل، ثقافت اور تشخص پر بھارتی حکومت یا مہاجرین کا اثر و رسوخ کم ہو۔
تریپورہ میں شورش کے دوران، بھارتی حکومت نے اپنی فوج اور سیکیورٹی فورسز کی موجودگی بڑھا دی ہے۔ “افسپا” (AFSPA) جیسے قوانین نے فوج کو اس ریاست میں انتہائی اختیارات دیے ہیں جن کے تحت فوجی کارروائیاں عام شہریوں کے خلاف بھی کی جا تی ہیں۔
بھارتی فوج کی طرف سے ہونے والے تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی تریپورہ میں مقامی لوگوں کی شکایات میں شامل ہیں فوجی آپریشنز اور ان کی کارروائیوں میں اکثر مقامی افراد پر تشدد، غیر قانونی گرفتاریوں اور جبری گمشدگیوں کے واقعات سامنے آ رہے ہیں جس سے عوام میں حکومت اور فوج کے خلاف غصہ اور نفرت بڑھ گئی ہے۔
تریپورہ میں بنگالی مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد مقامی تریپوری لوگوں کے لئے ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے ان مہاجرین کی آمد نے تریپورہ کی ثقافت، زمینوں اور وسائل پر دباؤ ڈالا ہے مقامی لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ مہاجرین کے سبب ان کی شناخت خطرے میں ہے اور ان کی زمینوں پر قبضہ بڑھ رہا ہے اسی وجہ سے تریپورہ کے مقامی عوام کی طرف سے علیحدگی کی تحریکوں میں مزید شدت آئی ہے۔
تریپورہ کی اقتصادی صورتحال بھی مقامی لوگوں کے تحفظات میں اضافے کا باعث بنی ہے یہاں کے عوام کو اقتصادی ترقی اور روزگار کے مواقعوں کی کمی کا سامنا ہے جبکہ ریاست میں مہاجرین کی تعداد میں اضافے سے مقامی عوام میں مزید بے چینی پھیل گئی ہے۔ تریپورہ کی معاشی پسماندگی نے حکومت کے خلاف ناپسندیدگی اور علیحدگی پسند گروپوں کی حمایت میں اضافہ کیا ہے۔
تریپورہ میں نسلی اور مذہبی اختلافات بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں بنگالی مہاجرین کی بڑی تعداد ہندو ہے جبکہ مقامی تریپوری قبائل زیادہ تر عیسائی ہیں یہ مذہبی فرق کبھی کبھار علیحدگی پسند تحریکوں کو جنم دیتا ہے کیونکہ مقامی لوگ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی ثقافت اور مذہب کی طرف حکومت کا رویہ غیر تسلیم شدہ ہے۔
بھارتی حکومت نے تریپورہ میں علیحدگی پسند تحریکوں کو کچلنے کے لئے فوجی آپریشنز، مذاکرات اور دیگر اقدامات کیے ہیں تاہم یہ اقدامات مقامی لوگوں کے تحفظات کو دور کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں حکومت کی طرف سے اکثر معافیاں اور اصلاحات کی پیشکش کی جاتی رہی ہے لیکن جب تک مقامی عوام کو اپنے حقوق کا مکمل تحفظ نہیں ملتا علیحدگی پسند تحریکیں مسلسل جاری رہتی ہیں۔
تریپورہ میں علیحدگی پسند تحریکیں اور مقامی عوام کے تحفظات کا تعلق بنیادی طور پر نسلی، ثقافتی، معاشی اور سیاسی مسائل سے ہے بھارتی فوج کی موجودگی اور اس کے تشدد نے عوام میں مزید بے چینی پیدا کی ہے اور ریاست کے مقامی افراد نے علیحدگی کی تحریکوں کی حمایت کی ہے تاکہ وہ اپنی شناخت، ثقافت اور وسائل کو محفوظ رکھ سکیں۔
سیون سسٹر اسٹیٹ کی ساتویں ریاست میزورام ہے یہ ریاست بھارت کے شمال مشرق میں واقع ہے ریاست میزورام کے لوگوں کے خدو خال بنگلہ دیش کے لوگوں کے خدو خال سے ملتے جلتے ہیں یہ ایک ایسی ریاست ہے جہاں کی تاریخ میں آزادی پسند تحریکوں کا اہم کردار رہا ہے۔
20 ویں صدی کے دوران خاص طور پر 1960 کی دہائی کے بعد یہاں کی مقامی آبادی نے بھارت کی مرکزی حکومت کے ساتھ تعلقات میں بے چینی اور تحفظات کا اظہار کیا۔
میزورام کی آزادی پسند تحریک کی جڑیں اس علاقے کی مقامی قومیت، ثقافت اور شناخت سے جڑی ہوئی ہیں 1947 میں بھارت کی آزادی کے بعد میزو قوم نے محسوس کیا کہ ان کی ثقافت اور حقوق کو بھارت کی مرکزی حکومت کے ذریعے نظرانداز کیا جا رہا ہے اس کا آغاز “میزو نیشنل فرنٹ” (Mizo National Front – MNF) کے قیام سے ہوا جو 1966 میں ایک مسلح بغاوت کے طور پر ابھرا۔
اس بات کا مطالبہ کیا کہ میزو قوم کو ایک علیحدہ ریاست یا خود مختاری دی جائے تاکہ وہ اپنی ثقافت، زبان، اور روایات کو بچا سکیں اس دوران، MNF نے بھارتی حکومت کے خلاف جنگ چھیڑ دی جس کا نتیجہ فوجی تشدد اور بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی صورت میں نکلا۔
میزو قوم کا عقیدہ، زبان اور ثقافت مختلف تھی اور انہوں نے محسوس کیا کہ بھارت کی مرکزی حکومت ان کی شناخت کو دھندلا کر رہی ہے۔
بھارتی حکومت کی کئی پالیسیوں نے میزو عوام کو معاشی طور پر نچلا اور پسماندہ بنا دیا تھا جس کے نتیجے میں یہ علاقہ مزید پسماندگی اور غربت کا شکار ہو گیا تھا۔
آزادی پسند تحریکوں کی شدت کے دوران بھارتی حکومت نے فوجی طاقت کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں کئی عام شہریوں کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا ان فوجی آپریشنز میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں بھی ہوئیں جس سے مقامی آبادی میں غصہ اور بے چینی بڑھ گئی۔
میزورام میں آزادی کی تحریک اور حکومت کے ساتھ تنازعات کے دوران بھارتی فوج نے کئی بار طاقت کا استعمال کیا 1966 کی جنگ کے دوران بھارتی فوج نے میزو نیشنل فرنٹ (MNF) کے ارکان کو دبانے کے لیے جبر کا سہارا لیا۔
اس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ مارے گئے زخمی ہوئے یا بے گھر ہوگئے حکومت کی جانب سے فوجی آپریشنز کے دوران شہریوں پر ہونے والے تشدد اور دیگر خلاف ورزیوں نے صورتحال کو مزید پیچیدہ اور سنگین بنا دیا۔
میزورم کی علیحدگی پسند تحریک نے 1960 کی دہائی میں زور پکڑا میزورم نیشنل فرنٹ نے آزادی کا مطالبہ کیا تھا مگر بھارتی حکومت کا ظلم و جبر اور نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے
ان ریاستوں کے لوگ عموماً اپنے آپ کو باقی ہندوستانی معاشرت سے مختلف سمجھتے ہیں زبان، رسم و رواج، اور ثقافت میں فرق ہونے کی وجہ سے ان ریاستوں کے لوگ خود کو بھارت سے الگ محسوس کرتے ہیں۔
یہ ریاستیں مجموعی طور پر اقتصادی ترقی کے لحاظ سے بہت پیچھے ہیں قدرتی وسائل کی دولت سے مالامال ہونے کے باوجود ان علاقوں کے لوگ غربت اور پسماندگی کا شکار ہیں۔
ان ریاستوں کے لوگ اکثر یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے حقوق کو بھارتی حکومت کی جانب سے ہمیشہ نظرانداز کیا جاتاہے اور ان کی سیاسی آواز کو مختلف طریقوں سے دبایا جاتا رہا ہے۔
بھارتی حکومت ان ریاستوں کے قدرتی وسائل پر جیسے کہ تیل، چائے، اور دیگر قدرتی وسائل اور دیگر کاروباری اداروں کا قبضہ ہے
بھارتی حکومت نے ان علیحدگی پسند تحریکوں کو دبانے کے لیے کئی فوجی آپریشنز، انٹیلی جنس کی بنیاد پر انتقامی کارروائیاں کیں ہیں تاہم کئی بار ایسے اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں کشیدگی میں اضافے کا سبب بنے ہیں-
ان سات ریاستوں میں علیحدگی پسند تحریکوں کی وجہ نسلی، ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی پہلو ہیں سیون سسٹر اسٹیٹ میں علیحدگی پسند تحریکوں کی تاریخ یہ ظاہر کرتی ہے کہ علیحدگی کی وجہ صرف سیاسی وجوہات پر نہیں ہے بلکہ ثقافتی اور معاشی مسائل کی وجہ سے ہے بھارتی حکومت اور مقامی افراد کے درمیان ڈائیلاگ اور اعتماد کا فقدان ہے-