ٹائیگرز ہمالیہ کی چوٹیوں پر دکھائی دینے لگے
اسلام آباد (صداۓ روس)
نیپال کے جنگلاتی علاقوں سے تعلق رکھنے والے بنگال ٹائیگر اب اپنی روایتی پناہ گاہوں سے نکل کر ہمالیہ کی بلندیوں کی جانب بڑھنے لگے ہیں، جہاں پہلے کبھی ان کی موجودگی ریکارڈ نہیں ہوئی تھی۔ ایک حالیہ سائنسی رپورٹ کے مطابق نیپال کے وسطی اضلاع — روپندیہی، کپلوستُو اور پالپا — میں کیمرہ ٹریپ کے ذریعے متعدد مقامات پر ٹائیگرز کی تصاویر حاصل ہوئی ہیں، جو اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ یہ بڑے شکاری اب غیر محفوظ اور بلند علاقوں میں بھی اپنی موجودگی درج کروا رہے ہیں۔ سورہا بایوڈائیورسٹی کنزرویشن سینٹر کے ماہر ببرام لامچھانے کے مطابق، یہ نایاب مناظر نیپال کے چورے پہاڑوں میں حاصل ہوئے ہیں جو کہ کسی قومی پارک کے تحفظ میں نہیں آتے۔ یہاں نہ صرف ایک مادہ ٹائیگر کی موجودگی ریکارڈ کی گئی بلکہ اسی علاقے سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک نر ٹائیگر بھی کیمرہ میں قید ہوا، جس سے ماہرین یہ قیاس کر رہے ہیں کہ یہ دونوں ممکنہ طور پر مل چکے ہوں گے۔ اگر یہ مفروضہ درست ثابت ہوتا ہے تو یہ خطے میں ایک نئی افزائشی کالونی کی بنیاد بھی بن سکتی ہے۔
نیپال میں 2018 کی مردم شماری کے مطابق پانچ قومی پارکوں میں مجموعی طور پر 235 ٹائیگرز موجود تھے، جن میں سب سے زیادہ 93 چتوَن نیشنل پارک میں پائے گئے۔ لیکن حالیہ تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ ان پارکوں سے باہر، غیر روایتی اور پہاڑی علاقوں میں بھی ٹائیگرز نے اپنے قدم جما لیے ہیں۔ دسمبر 2020 میں نیپال کی تاریخ میں سب سے اونچائی پر ٹائیگر کی موجودگی 3,165 میٹر پر ضلع ایلم میں ریکارڈ کی گئی، جبکہ اپریل 2021 میں 2,500 میٹر کی بلندی پر دادیلدھورا میں بھی ایک ٹائیگر کیمرہ ٹریپ میں قید ہوا۔ اس غیر معمولی نقل مکانی کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔ سب سے نمایاں سبب ماحولیاتی تبدیلی، قومی پارکوں میں خوراک کی کمی، اور نیپال کے کامیاب کمیونٹی جنگلات کی بحالی کی کوششیں ہیں، جنہوں نے پہاڑی علاقوں میں بھی قدرتی جنگلات کو بہتر بنایا۔ ماہرین کے مطابق، ٹائیگر اپنی حدود اس وقت چھوڑتا ہے جب اسے خوراک یا جگہ کی قلت محسوس ہو، اور یہی معاملہ اب نیپال کے محافظتی علاقوں میں درپیش ہے۔
اس سائنسی پیش رفت کے تناظر میں اگر پاکستان اور آزاد کشمیر کی صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے، تو یہ سوال اب زیادہ سنجیدہ ہوتا جا رہا ہے کہ کیا آنے والے برسوں میں آزاد کشمیر کے گھنے جنگلات اور بلند پہاڑی علاقے بھی ٹائیگرز کے لیے موزوں مسکن بن سکتے ہیں؟ اگرچہ اس وقت آزاد کشمیر میں ٹائیگرز کی موجودگی کی کوئی مصدقہ یا سائنسی شہادت موجود نہیں، تاہم مقامی لوگوں کی جانب سے حالیہ برسوں میں جنگلوں میں ’شیر‘ دیکھنے کے غیر مصدقہ دعوے سامنے آئے ہیں، جنہیں ممکنہ طور پر عام تیندوا سمجھا جا رہا ہے۔ تاہم، نیپال کی مثال سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر قدرتی جنگلات کو محفوظ رکھا جائے، راہداریاں بحال کی جائیں اور جانوروں کی نقل و حرکت میں آسانی فراہم کی جائے، تو یہ بالکل ممکن ہے کہ مستقبل میں آزاد کشمیر جیسے علاقوں میں بھی ٹائیگرز کی آمد ہو۔ خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں پہاڑی جنگلات، چشمے، ندی نالے اور انسانی مداخلت کم ہو، وہاں ٹائیگر جیسے نایاب درندے کے لیے ماحول سازگار ہو سکتا ہے۔
یہ امر حکومتِ پاکستان، جنگلی حیات کے تحفظ کے اداروں اور ماحولیاتی ماہرین کے لیے ایک اہم اشارہ ہے کہ وہ نیپال کی طرز پر اپنے جنگلاتی و حیاتیاتی نظام کا دوبارہ جائزہ لیں، خاص طور پر ان علاقوں کا جو ابھی تک تحفظ کے دائرہ کار میں نہیں آئے۔ اگر ہم بروقت اقدامات کریں تو یہ نہ صرف ہماری حیاتیاتی تنوع کو محفوظ بنائے گا، بلکہ پاکستان کو جنگلی حیات کے تحفظ کے عالمی نقشے پر ایک فعال کردار ادا کرنے کا موقع بھی فراہم کرے گا۔