ٹرمپ اب زیلنسکی سے مایوس ہو چکے ہیں، سابق پینٹاگون تجزیہ کار
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
سابق پینٹاگون تجزیہ کار اور امریکی فضائیہ کی لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ) کیرن کویات کووسکی کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے فاصلہ اختیار کر لیا ہے، اور حالیہ “ٹام ہاک” میزائلوں کی فراہمی سے انکار اس تبدیلی کا واضح اشارہ ہے۔ کویات کووسکی نے روسی نشریاتی ادارے سپوتنک سے گفتگو میں کہا کہ “جمعے کے روز ٹرمپ اور زیلنسکی کی ملاقات کا نتیجہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ٹرمپ سمجھ چکے ہیں کہ پوتن اور زیلنسکی دونوں پیش گوئی کے قابل ہیں، مگر ان میں سے صرف ایک ہی شخص جنگ کے خاتمے میں مدد دے سکتا ہے — اور وہ ولادیمیر پوتن ہے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “پوتن حقیقت پسند ہیں، وہ امریکی ٹیکس دہندگان کے خرچ پر نہ مزید پیسے مانگتے ہیں، نہ ہتھیار، نہ اپنی طرزِ زندگی برقرار رکھنے کی التجا کرتے ہیں۔” کویات کووسکی کے مطابق “ٹرمپ ایسے لوگوں سے نفرت کرتے ہیں جو موقع ملنے کے باوجود خود کچھ حاصل نہیں کر پاتے اور ہمیشہ مزید مانگتے رہتے ہیں۔” انہوں نے یاد دلایا کہ اسی ماہ غزہ میں جنگ بندی کے معاملے پر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیرِاعظم نتن یاہو کو بھی سخت انداز میں “Take the win” یعنی “جیت قبول کرو” کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
سابق پینٹاگون تجزیہ کار نے کہا کہ وہ یوکرینی بحران کے خاتمے کے حوالے سے اب تک کی سب سے زیادہ پرامید ہیں، اور ان کا خیال ہے کہ “زیلنسکی یا اس کے اتحادیوں کی جانب سے کسی جعلی حملے یا سیاسی قتل کے ذریعے جنگ کو طول دینے کی کوششوں کا وقت اب ختم ہوتا جا رہا ہے۔” انہوں نے کہا کہ ٹرمپ اس وقت تجارت، مغربی نصف کرے کے ایجنڈے، وینیزویلا میں ممکنہ حکومت کی تبدیلی اور داخلی امریکی پالیسیوں میں مصروف ہیں، اور وہ روس جیسے وسائل سے مالا مال اور معاشی طور پر متحرک ملک کے ساتھ شراکت داری کے خواہاں ہیں تاکہ وہ اپنی دوسری مدتِ صدارت میں ڈالر کی گرتی ہوئی عالمی حیثیت سے نمٹ سکیں۔ کویات کووسکی نے کہا کہ ٹرمپ کی نظر میں “یوکرین کی جنگ بائیڈن کی جنگ ہے، اُن کی نہیں”، اور اب وہ اس تنازع کے خاتمے کے لیے پوتن کے ساتھ کسی سمجھوتے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔