ٹرمپ کا روس-یوکرین جنگ بندی کا نیا الٹی میٹم: صرف 10 سے 12 دن کی مہلت
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس اور یوکرین کو جنگ بندی کے لیے دی گئی مہلت کو کم کرتے ہوئے سخت انتباہ جاری کیا ہے کہ اب ماسکو کے پاس صرف 10 سے 12 دن باقی ہیں، ورنہ نئی اور وسیع پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسکاٹ لینڈ میں برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر کے ساتھ بیٹھے ہوئے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا میں اب ایک نیا ڈیڈ لائن دے رہا ہوں… آج سے تقریباً 10 یا 12 دن کے اندر۔ انتظار کی کوئی وجہ نہیں۔ میں دریا دلی دکھانا چاہتا تھا، لیکن ہمیں کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔
ابتدائی طور پر ٹرمپ نے روس اور یوکرین کو 50 دن کی مہلت دی تھی تاکہ وہ کسی امن معاہدے پر پہنچ جائیں، بصورتِ دیگر روسی درآمدات پر 100 فیصد محصولات اور روس سے تجارت کرنے والے ممالک و کمپنیوں پر ثانوی پابندیوں کی دھمکی دی گئی تھی۔ یہ ابتدائی ڈیڈ لائن ستمبر کے اوائل میں ختم ہونا تھی۔
ٹرمپ نے کہا کہ وہ روسی صدر ولادیمیر پوتن سے “بہت مایوس” ہیں اور دعویٰ کیا کہ وہ پہلے بھی پانچ بار جنگ بندی کے قریب پہنچ چکے تھے۔ ان کا کہنا تھا: “میں نے صدر پوتن سے بہت مرتبہ بات کی ہے — ہمارے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں۔ یہ انتباہ پہلی بار 14 جولائی کو دیا گیا تھا، جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ اگر مقررہ مدت میں جنگ بندی نہ ہوئی تو امریکہ یوکرین کو دوبارہ اسلحہ فراہم کرے گا، جس کی مالی اعانت جزوی طور پر نیٹو اتحادیوں کے ذریعے کی جائے گی۔ دوسری جانب، ماسکو نے اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے، لیکن واضح کیا ہے کہ کسی بھی بات چیت میں زمینی حقائق اور تنازع کی اصل وجوہات کو پیشِ نظر رکھا جانا ضروری ہے۔ روسی حکام نے ٹرمپ کے پابندیوں کے انتباہ کو غیر مؤثر اور جنگ کو طول دینے والا قرار دیا ہے۔ روسی وزارتِ خارجہ نے کہا: “یہ بیانات صرف جنگ کے تسلسل کا باعث بنتے ہیں۔” وزارت نے واشنگٹن سے مطالبہ کیا کہ وہ کیف پر دباؤ ڈالے تاکہ وہ مذاکرات پر سنجیدگی سے آمادہ ہو۔ روسی نائب وزیرِ خارجہ سرگئی ریابکوف نے کہا کہ “نئی پابندیاں بھی ہمارے راستے کو تبدیل نہیں کریں گی۔ ہم اپنی خودمختار، آزاد اور پُرعزم پالیسی پر گامزن رہیں گے۔ دریں اثناء، ماسکو اور کیف کے درمیان براہ راست مذاکرات تین سال کے تعطل کے بعد مئی میں استنبول میں بحال ہوئے ہیں۔ حالیہ ملاقات میں قیدیوں کے تبادلے اور انسانی امور پر کچھ پیش رفت ہوئی، تاہم جنگ بندی پر کوئی بڑا بریک تھرو سامنے نہیں آیا۔ صدر ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ پابندیاں مقررہ وقت سے پہلے بھی عائد کر سکتے ہیں اور “یہ اقدام کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔