غزہ امن منصوبے پر دستخط نہ ہوئے تو زندگی جہنم بنا دوں گا، ٹرمپ کی دھمکی
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں جاری دو سالہ جنگ کو ختم کرنے کے لیے پیش کردہ 20 نکاتی امن منصوبے پر حماس کو “تین سے چار دن” کی شدید ڈیڈلائن دے دی ہے، وارننگ دیتے ہوئے کہ اگر دستخط نہ ہوئے تو “بہت افسوسناک انجام” یا “جہنم کا سامنا” کرنا پڑے گا۔ یہ بیان ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران دیا، جہاں انہوں نے منصوبے کو “مشرق وسطیٰ میں امن کی طرف بڑا قدم” قرار دیا۔
یہ منصوبہ، جو اسرائیل کی مکمل حمایت حاصل ہے، فوری جنگ بندی، حماس کی جانب سے 72 گھنٹوں میں تمام یرغمالیوں کی رہائی، تنظیم کا مکمل غیر مسلح ہونا، اور اسرائیلی فوج کا مرحلہ وار غزہ سے انخلا پیش کرتا ہے۔ منصوبے کے تحت، غزہ میں ایک عبوری “پیس بورڈ” تشکیل دی جائے گی، جس کی سربراہی خود ٹرمپ کریں گے، اور اس میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر جیسے عالمی شخصیات شامل ہوں گی۔ حماس کو مستقبل کی حکومت سے مکمل طور پر الگ کر دیا جائے گا، البتہ جو ارکان پرامن سیاسی کردار اپنائیں گے انہیں عام معافی ملے گی، جبکہ دیگر کو محفوظ راستہ دے کر غزہ سے باہر بھیجا جا سکتا ہے۔
عرب اور مسلم ممالک سمیت سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، قطر، مصر اور فلسطینی اتھارٹی نے اس منصوبے کا خیر مقدم کیا ہے، اور فتح نے اسے “سخت اور سنجیدہ کوشش” قرار دیا ہے۔ تاہم، حماس نے تاحال باضابطہ جواب نہیں دیا، البتہ فلسطینی ذرائع کے مطابق تنظیم نے اپنی اندرونی اور بیرونی قیادت (بشمول قطر اور ترکی میں موجود رہنماؤں) کے ساتھ مشاورت شروع کر دی ہے، جو کئی دن لے سکتی ہے۔ قطر نے اعلان کیا ہے کہ وہ حماس اور ترکی کے ساتھ دوحا میں ملاقات کرے گا تاکہ بات چیت آگے بڑھائی جائے – یہ ترکی کی پہلی بار بطور کلیدی ثالث شمولیت ہے۔ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری بحثوں میں، کئی صارفین نے ٹرمپ کی ڈیڈلائن کو “دباؤ کی حکمت عملی” قرار دیا ہے، جبکہ دیگر نے حماس پر “امن کی راہ میں رکاوٹ” کا الزام لگایا۔ مثال کے طور پر، ایک پوسٹ میں کہا گیا: “ٹرمپ نے حماس کو 3-4 دن کی ڈیڈلائن دی ہے، انکار پر ‘بہت افسوسناک انجام’ کا وعدہ۔”