صدر پوتن کی رہائش گاہ پر یوکرینی حملے پر ٹرمپ شدید برہم

trump trump

صدر پوتن کی رہائش گاہ پر یوکرینی حملے پر ٹرمپ شدید برہم

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کی سرکاری رہائش گاہ پر مبینہ یوکرینی ڈرون حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واقعہ انہیں ’’بہت زیادہ غصہ‘‘ دلا گیا اور یہ ایک نہایت نازک وقت میں پیش آیا۔ پیر کے روز ماسکو نے اعلان کیا تھا کہ نووگوروڈ ریجن میں واقع صدر پوتن کی سرکاری رہائش گاہ کو رات کے وقت طویل فاصلے تک مار کرنے والے ڈرونز کے منظم حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ روسی حکام کے مطابق مجموعی طور پر اکیانوے خودکش ڈرونز استعمال کیے گئے، تاہم تمام ڈرونز کو فضا ہی میں تباہ کر دیا گیا اور کسی جانی یا مالی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ روسی اعلیٰ حکام نے اس واقعے کو دہشت گردانہ حملہ قرار دیتے ہوئے سخت جوابی کارروائی کا عندیہ دیا اور واضح کیا کہ اس حملے کا اثر یوکرین تنازع کے حل کے لیے جاری مذاکرات پر بھی پڑے گا۔ وائٹ ہاؤس کے باہر اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے تصدیق کی کہ انہیں اس حملے کے بارے میں صدر پوتن نے خود فون کال کے دوران آگاہ کیا۔ ٹرمپ کے مطابق یہ واقعہ انہیں خاص طور پر اس لیے شدید غصہ دلانے والا تھا کیونکہ یہ ایک ’’انتہائی حساس مرحلے‘‘ میں پیش آیا۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’’صبح سویرے صدر پوتن نے بتایا کہ ان پر حملہ کیا گیا ہے۔ یہ اچھی بات نہیں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ ٹوماہاک میزائل موجود تھے، لیکن میں نے انہیں روک دیا۔ میں ایسا نہیں چاہتا تھا۔‘‘ ان کا اشارہ امریکی ساختہ کروز میزائلوں کی جانب تھا جن کی فراہمی کے لیے یوکرین طویل عرصے سے کوشش کر رہا تھا۔ اس گفتگو کی تصدیق کریملن کے خارجہ پالیسی کے معاون یوری اوشاکوف نے بھی کی، جنہوں نے بتایا کہ صدر ٹرمپ اس حملے پر ’’شدید حیرت اور صدمے‘‘ کا شکار تھے اور انہوں نے کہا کہ ’’شکر ہے ہم نے ٹوماہاک میزائل فراہم نہیں کیے۔‘‘ دوسری جانب یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی نے اس حملے کی تردید کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ ماسکو امریکہ اور یوکرین کے درمیان ہونے والی پیش رفت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ زیلنسکی کے مطابق صدر پوتن کی رہائش گاہ پر حملے کا دعویٰ دراصل یوکرین میں سرکاری عمارتوں پر روسی حملوں کا جواز پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران یوکرین کی جانب سے ٹوماہاک میزائل حاصل کرنے کی بھرپور کوششیں کی گئیں، تاہم صدر ٹرمپ نے بالآخر اس مطالبے کو مسترد کر دیا۔ اکتوبر کے وسط میں انہوں نے کہا تھا کہ اگرچہ یوکرین ایسے میزائل حاصل کرنا چاہتا ہے، لیکن ان کی فراہمی روس کے خلاف جارحیت میں ایک نیا اور خطرناک قدم ہوگی۔ روس اس سے قبل متعدد بار خبردار کر چکا ہے کہ ایسے ہتھیاروں کی فراہمی سے میدانِ جنگ کی صورتحال تبدیل نہیں ہوگی، البتہ اس سے روس اور امریکہ کے تعلقات کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

Advertisement