خبریں ہوں یا تجزیے — عالمی منظرنامہ، صرف "صدائے روس" پر۔

LN

زیلنسکی کو اب روس سے امن معاہدہ کرلینا چاہیے، ٹرمپ کا بیان

Trump

زیلنسکی کو اب روس سے امن معاہدہ کرلینا چاہیے، ٹرمپ کا بیان

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ آئندہ ہفتے روسی صدر ولادیمیر پوتن اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ ایک سہ فریقی اجلاس منعقد کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی میڈیا اداروں ایکسیوس اور سی این این کے مطابق یہ اجلاس اگلے جمعے ممکن ہے، بشرطیکہ پیر کے روز وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ اور زیلنسکی کی بالمشافہ ملاقات کامیاب رہتی ہے۔ گزشتہ جمعے الاسکا کے شہر اینکریج میں ٹرمپ اور پوتن کے درمیان طویل ملاقات ہوئی جو یوکرین جنگ کے بعد ان کی پہلی براہِ راست ملاقات تھی۔ ٹرمپ نے اس گفتگو کو “گرم جوش” قرار دیا، جبکہ پوتن نے اسے “کھری اور بامقصد” بات چیت کہا۔ اس ملاقات کے بعد ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا، جسے ذرائع نے “آسان نہ ہونے والی گفتگو” قرار دیا۔ اس کال میں یورپی رہنما بھی شامل ہوئے، اور اسی دوران ٹرمپ نے واضح کیا کہ وہ جلد از جلد سہ فریقی اجلاس چاہتے ہیں۔
سی این این کے مطابق امکان ہے کہ زیلنسکی کی واشنگٹن میں ٹرمپ سے ملاقات کے دوران کم از کم ایک یورپی رہنما بھی شریک ہو، تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ کون سا رہنما ہوگا۔

ٹرمپ نے ہفتے کے روز اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر تصدیق کی کہ زیلنسکی آئندہ پیر کو وائٹ ہاؤس میں ان سے ملاقات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مقصد محض ایک عارضی جنگ بندی نہیں بلکہ ایک مستقل امن معاہدہ ہونا چاہیے، کیونکہ عارضی معاہدے زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ پاتے۔ دوسری جانب ماسکو کا مؤقف ہے کہ دیرپا حل کے لیے کیف کو نیٹو میں شمولیت کی خواہش ترک کرنی ہوگی، فوجی صلاحیت محدود کرنا ہوگی اور موجودہ زمینی حقائق تسلیم کرنے ہوں گے۔ روس ان علاقوں کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے جنہوں نے 2014 اور 2022 کے ریفرنڈم میں ماسکو سے الحاق کے حق میں ووٹ دیا تھا، جن میں کریمیا، دونیسک، لوگانسک، خیرسون اور زاپورژیا شامل ہیں۔ لیکن زیلنسکی نے ایک مرتبہ پھر کسی بھی زمینی رعایت کو مسترد کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے بعدازاں امریکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ زیلنسکی کو “معاہدہ کرنا چاہیے”، اور اس پر زور دیا کہ پوتن بھی اس عمل کو مکمل دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے یورپ پر بھی زور دیا کہ وہ اس عمل میں “کچھ زیادہ کردار ادا کرے۔” ادھر روسی صدر پوتن نے زیلنسکی کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کو مسترد نہیں کیا، تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس سے قبل جامع تصفیے کی سمت پیش رفت ضروری ہے۔ ماسکو نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ آیا زیلنسکی کو کسی قابلِ عمل معاہدے پر دستخط کرنے کا اختیار ہے، کیونکہ ان کی صدارت کی مدت ختم ہو چکی ہے اور مارشل لا کے باعث یوکرین میں نئے انتخابات نہیں ہو سکے۔

شئیر کریں: ۔