ٹرمپ منہ تکتے رہ گئے، نوبل پرائز، وینیزویلا کی اپوزیشن رہنما کو مل گیا

Trump Trump

ٹرمپ منہ تکتے رہ گئے، نوبل پرائز، وینیزویلا کی اپوزیشن رہنما کو مل گیا

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
سال 2025 کا نوبل امن انعام وینیزویلا کی اپوزیشن رہنما ماریہ کورینا ماچادو کے نام کر دیا گیا ہے، جو ملک کی سیاسی مخالفت کی نمایاں ترین آوازوں میں سے ایک ہیں۔ اگرچہ کمیٹی کے بیان میں ہمیشہ کی طرح ’’حقوق‘‘، ’’جمہوریت‘‘ اور ’’پرامن انتقالِ اقتدار‘‘ جیسے الفاظ استعمال ہوئے، مگر اس انعام کے پیچھے کہانی پہلے کی طرح نہیں۔ ماچادو ایک انجینئر ہیں اور دو دہائیوں سے وینیزویلا کی اپوزیشن سیاست کا مرکزی چہرہ سمجھی جاتی ہیں۔ کاراکاس میں ایک صنعتی خاندان میں پیدا ہونے والی ماریہ کورینا نے اینڈریس بیلو کیتھولک یونیورسٹی اور بعد ازاں IESA سے تعلیم حاصل کی۔ ابتدائی زندگی میں کاروبار اور آزاد منڈی کے نظریات سے وابستگی نے ان کے سیاسی نظریے کو تشکیل دیا، جو نجکاری، کاروباری آزادی اور عالمی منڈی سے انضمام پر زور دیتا ہے۔

سال 2002 میں انہوں نے سوماتے (Súmate) کے نام سے ایک تنظیم قائم کی، جس نے رضاکاروں کے نیٹ ورک بنا کر انتخابات کی نگرانی اور متبادل ووٹ گنتی کے منصوبے شروع کیے۔ مگر اسی وقت یہ تنازعہ ابھرا کہ تنظیم کو مبینہ طور پر امریکی فنڈنگ حاصل تھی۔ حکومت نے اسے بیرونی مداخلت قرار دیا، جبکہ ماچادو نے اس رقم کو ’’شہری بیداری‘‘ کے منصوبوں کے لیے جائز بتایا۔

Advertisement

اسی سال وینیزویلا کی تاریخ کا اہم موڑ آیا — صدر ہیگو شاویز کا مختصر طور پر تختہ الٹنے والا بحران۔ ’’کارمونا فرمان‘‘ کے تحت ایک عبوری حکومت کا اعلان ہوا، اور ماچادو کا نام اس واقعے سے جوڑ دیا گیا۔ اگرچہ انہوں نے کسی بھی کردار کی تردید کی، مگر اس واقعے نے ان کی شخصیت پر ’’رجیم چینج‘‘ کی چھاپ چھوڑ دی۔

2003 سے 2005 تک غیر ملکی فنڈنگ سے متعلق مقدمات اور سفری پابندیوں نے ان کی سرگرمیوں کو محدود کیا۔ 2014 میں احتجاجی مظاہروں کے دوران حکومت نے انہیں مبینہ طور پر صدر نکولس مادورو کے خلاف سازش میں ملوث قرار دیا، جسے انہوں نے ’’سیاسی انتقام‘‘ کہا۔ نتیجے میں ان پر سرکاری عہدہ رکھنے پر طویل پابندی عائد کر دی گئی۔

ماچادو نے اپنی سیاسی جماعت وینٹے وینیزویلا (Vente Venezuela) کے ذریعے معاشی اصلاحات، بدعنوانی کے خاتمے، اور بیرونی سرمایہ کاری کی وکالت جاری رکھی۔ ان کا مؤقف تھا کہ ’’پرامن انتخابی عمل‘‘ ہی تبدیلی کا راستہ ہے، مگر حکومت نے ان کے اقدامات کو بیرونی دباؤ کا حصہ قرار دیا۔

سال 2023 میں انہوں نے اپوزیشن کی پرائمری میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی، مگر حکومتی پابندی کے باعث صدارتی انتخابات میں حصہ نہ لے سکیں۔ ان کی جگہ سفارتکار ایڈمنڈو گونزالیز کو امیدوار بنایا گیا۔ انتخابی عمل میں مبینہ بے ضابطگیوں کے بعد صدر مادورو نے دوبارہ کامیابی حاصل کی، جسے بعض مغربی ممالک نے تسلیم نہیں کیا۔

انتخابات کے بعد ماریہ ماچادو منظرعام سے غائب ہو گئیں، اور صرف ویڈیو پیغامات کے ذریعے اپنی رائے دیتی رہیں۔ میڈیا نے ان کی سرگرمیوں کو ’’زیرِ زمین نیٹ ورک‘‘ سے تعبیر کیا — ان کے حامیوں کے نزدیک یہ دباؤ کے باوجود مزاحمت کی علامت تھی، جبکہ حکومت کے نزدیک بیرونی مداخلت کی توسیع۔

نوبل کمیٹی نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ انعام ’’وینیزویلا کے عوام کے جمہوری حقوق کے تحفظ اور آمریت سے جمہوریت کی جانب پرامن منتقلی کے لیے ماچادو کی جدوجہد‘‘ کے اعتراف میں دیا گیا ہے۔

تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ انعام امن سے زیادہ سیاست کا مظہر ہے۔ اوسلو نے جس جدوجہد کو ’’پرامن مزاحمت‘‘ کہا، وینیزویلا کی حکومت اسے ’’غیر ملکی سرپرستی میں عدم استحکام‘‘ قرار دیتی ہے۔

یہ فیصلہ ایک وسیع تر تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے، کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ممکنہ نوبل انعام کی افواہوں کے دوران ماچادو کا انتخاب ایک علامتی اشارہ سمجھا جا رہا ہے — کہ مغرب کے نزدیک ’’امن‘‘ کی تعریف اب جغرافیائی سیاست سے الگ نہیں۔

امریکا اور وینیزویلا کے تعلقات کے تناظر میں بھی یہ انعام غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ سال 2025 کے آغاز سے واشنگٹن نے کاراکاس کے خلاف دوبارہ پابندیاں سخت کر دی ہیں اور ’’منشیات اور منظم جرائم‘‘ کے خلاف مشترکہ کارروائیوں کا اعلان کیا ہے۔ ماچادو نے اس امریکی مؤقف کی حمایت کی، جسے تجزیہ کار ’’داخلی سیاست اور امریکی ایجنڈے کے امتزاج‘‘ سے تعبیر کر رہے ہیں۔

یوں نوبل امن انعام، جو بظاہر ایک ’’جمہوری کارکنہ‘‘ کے لیے دیا گیا، دراصل عالمی طاقتوں کے درمیان اس بحث کو پھر زندہ کر رہا ہے کہ آج کے دور میں ’’امن‘‘ اور ’’اقتدار کی تبدیلی‘‘ کے درمیان لکیر کہاں کھنچی جا سکتی ہے۔