یوکرین جنگ پیچیدہ، اور انتہائی مشکل ہوچکی، ٹرمپ کا اعتراف
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعتراف کیا ہے کہ یوکرین کے تنازعے کو حل کرنا اُن کی توقع سے کہیں زیادہ مشکل ثابت ہوا ہے۔ انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن اس جنگ کو ختم کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتے۔ ٹرمپ جنہوں نے اپنی صدارت کے آغاز میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ ماسکو اور کیف کے درمیان جنگ کو صرف 24 گھنٹوں میں ختم کروا دیں گے، اب تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ کام اتنا آسان نہیں۔ منگل کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا: “میں پوتن سے خوش نہیں ہوں، وہ بہت سے لوگوں کو مار رہا ہے، روسی اور یوکرینی دونوں سپاہی مارے جا رہے ہیں۔” ان کے مطابق ہر ہفتے 7,000 افراد اس تنازع میں ہلاک ہو رہے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اس حوالے سے کوئی عملی قدم اٹھائیں گے، تو ٹرمپ نے جواب دیا: “میں ابھی آپ کو نہیں بتاؤں گا، یہ ایک چھوٹا سا سرپرائز ہو گا۔” انہوں نے ایران کے ایٹمی مرکز پر حالیہ امریکی حملے کو بھی اپنی “غیر متوقع حکمت عملی” کی مثال کے طور پر پیش کیا۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ اگر امریکہ یوکرین کو ہتھیار فراہم نہ کرتا تو روس تین سے چار دن میں اسے شکست دے چکا ہوتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں امریکہ نے یوکرین کو یورپ سے بھی زیادہ اسلحہ دے دیا، جو شاید ضرورت سے زیادہ تھا۔ ہم نے یوکرین کو سب سے بہترین فوجی سازوسامان فراہم کیا ہے، ٹرمپ نے کہا ہم اس وقت تین سو ارب ڈالر کی حد تک وہاں شامل ہیں۔ انہوں نے امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں سے کہا ہے کہ وہ اپنی پیداوار کی رفتار بڑھائیں۔
روس کے صدر کے حوالے سے انہوں نے کہا پوتن ہمیشہ بہت اچھے انداز میں بات کرتے ہیں، لیکن یہ سب بے معنی ثابت ہوتا ہے۔ ہمیں ان سے بہت سی بکواس سننی پڑتی ہے۔ ریپبلکن سینیٹر لنزے گراہم کی طرف سے روس پر مزید پابندیاں لگانے کے لیے ایک بل پیش کیا گیا ہے، جس پر ٹرمپ نے کہا کہ وہ اسے “دیکھ رہے ہیں، اور مزید کہا کہ پابندیاں لگانے کا حتمی فیصلہ صرف انہی کا اختیار ہے۔
گزشتہ ہفتے امریکی محکمہ دفاع (پنٹاگون) نے یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی عارضی طور پر روک دی تھی، جسے روس نے خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے جنگ کے خاتمے کی امید بڑھ گئی ہے۔ تاہم پیر کو ٹرمپ نے اس فیصلے سے جزوی طور پر پیچھے ہٹتے ہوئے کہا کہ یوکرین اب روس کے شدید حملوں کی زد میں ہے،” اس لیے امداد کی فراہمی پر دوبارہ غور کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف روس کا مؤقف ہے کہ مغرب کی جانب سے یوکرین کو اسلحے کی فراہمی جنگ کو طول دیتی ہے اور اس کے نتائج مزید خطرناک ہو سکتے ہیں۔