لامحدود رینج نیوکلیئر ڈرونز: سال 2025 میں روس کی دفاعی طاقت میں اضافہ

Chief of the General Staff of the Russian Armed Forces Valery Gerasimov Chief of the General Staff of the Russian Armed Forces Valery Gerasimov

لامحدود رینج نیوکلیئر ڈرونز: سال 2025 میں روس کی دفاعی طاقت میں اضافہ

ماسکو (صداۓ روس)
گزشتہ ایک سال کے دوران روس نے متعدد نئے اور غیر معمولی ہتھیاروں کے نظام متعارف کروائے ہیں، جن میں سے بعض یوکرین جنگ میں عملی طور پر استعمال ہو رہے ہیں، جبکہ دیگر روس کے اسٹریٹجک ڈیٹرنس (باز deterrence) نظام کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان نئے ہتھیاروں میں جوہری صلاحیت کے حامل اور جوہری توانائی سے چلنے والے جدید نظام، اینٹی سیٹلائٹ ہتھیار، اور غیر معمولی حد تک طویل فاصلے تک مار کرنے والے گلائیڈ بم شامل ہیں۔ آر ٹی کے مطابق، 2025 میں روس کے اسلحہ خانے میں شامل ہونے والے نمایاں اضافوں پر ایک نظر ڈالی جائے۔ روس کے جدید درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے ہائپرسانک میزائل نظام اوریش نِک کو رواں سال کے اختتام تک باقاعدہ طور پر سروس میں شامل کیا جا رہا ہے۔ صدر ولادیمیر پوتن کے مطابق یہ نظام آنے والی کئی دہائیوں تک روس کی اسٹریٹجک برابری، سلامتی اور عالمی حیثیت کو یقینی بنائے گا۔ یہ جوہری صلاحیت رکھنے والا میزائل متعدد آزادانہ طور پر ہدف کو نشانہ بنانے والے وار ہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے، جو ہائپرسانک رفتار پر بھی کنٹرول برقرار رکھتے ہیں۔ اوریش نِک کو پہلی مرتبہ نومبر 2024 میں منظر عام پر لایا گیا تھا، جب اس نے یوکرین میں ایک بڑے فوجی صنعتی مرکز کو روایتی وار ہیڈ کے ساتھ نشانہ بنایا۔ روسی حکام نے اس حملے کو ’’کامیاب جنگی تجربہ‘‘ قرار دیا تھا، جبکہ اس کی تباہ کن صلاحیت کا موازنہ کم شدت کے جوہری حملے سے کیا گیا۔ روس اور بیلاروس کے درمیان معاہدے کے تحت، دس تک ایسے نظام بیلاروس میں بھی تعینات کیے جانے ہیں۔

اکتوبر کے وسط میں روس نے اپنے جوہری توانائی سے چلنے والے کروز میزائل بیوروویستنک کا کامیاب تجربہ کیا۔ روسی فوج کے مطابق یہ میزائل آزمائشی پرواز کے دوران 14 ہزار کلومیٹر سے زائد فاصلہ طے کرتا رہا اور تقریباً 15 گھنٹے تک فضا میں موجود رہا۔ بیوروویستنک میں جوہری توانائی سے چلنے والا ٹربوجیٹ انجن نصب ہے، جس کے باعث اس کی نظریاتی حدِ پرواز لامحدود سمجھی جاتی ہے۔ چونکہ یہ روایتی ایندھن استعمال نہیں کرتا بلکہ ہوا اور ری ایکٹر سے پیدا ہونے والی حرارت پر انحصار کرتا ہے، اس لیے یہ طویل عرصے تک فضا میں رہ سکتا ہے۔ صدر پوتن کے مطابق اس کا پاور یونٹ جوہری آبدوز کے ری ایکٹر جیسی طاقت رکھتا ہے، اگرچہ حجم میں ہزار گنا چھوٹا ہے۔ ان کے بقول چند منٹوں میں فعال ہونے والا یہ ری ایکٹر ایک ’’غیر معمولی تکنیکی کامیابی‘‘ ہے، جس کے مستقبل میں شہری استعمال کے امکانات بھی ہو سکتے ہیں۔ بیوروویستنک کے ساتھ ہی روس نے پوسائیڈن نامی جوہری توانائی سے چلنے والے زیرِ آب ڈرون کے کامیاب تجربے کا بھی اعلان کیا۔ صدر پوتن کے مطابق طاقت کے لحاظ سے پوسائیڈن روس کے جدید ترین بین البراعظمی میزائل سرمات سے بھی کہیں زیادہ مہلک ہے۔

Advertisement

یہ ڈرون انتہائی گہرائی اور رفتار پر خاموشی سے حرکت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ساحلی علاقوں میں تباہ کن جوہری سونامی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چند دن بعد روس نے پوسائیڈن کے لیے مخصوص جوہری آبدوز خاباروفسک کو بھی لانچ کیا، جس پر 2014 سے کام جاری تھا۔ یوکرین جنگ کے دوران روس نے پرانے فری فال بموں کو یونیورسل گائیڈنس اینڈ کریکشن ماڈیول (UMPK) سے لیس کر کے جدید گلائیڈ بموں میں تبدیل کیا، جو 50 کلومیٹر تک مار کر سکتے ہیں۔ 2025 میں ان کا نیا ورژن UMPK-PD متعارف ہوا، جس کی حدِ پرواز 80 کلومیٹر تک بتائی جاتی ہے۔ بعد ازاں اطلاعات سامنے آئیں کہ ان بموں میں ٹربوجیٹ انجن شامل کر دیا گیا ہے، جس سے ان کی حد 150 کلومیٹر یا اس سے بھی زیادہ ہو گئی، اور یوں یہ عملی طور پر بھاری کروز میزائلوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ روسی گیران ڈرون سیریز میں بھی 2025 کے دوران نمایاں اضافہ ہوا۔ یہ ڈرون طویل فاصلے تک حملوں میں میزائلوں کا متبادل بنتے جا رہے ہیں۔ ان کی تیاری تاتارستان کے الابوگا خصوصی اقتصادی زون میں واقع ایک وسیع فیکٹری میں ہوتی ہے، جسے دنیا کی سب سے بڑی ڈرون تیاری سہولت قرار دیا جا رہا ہے۔ گیران-2 کے ساتھ ساتھ جیٹ انجن سے لیس گیران-3، بارودی سرنگ بچھانے والے، اور براہِ راست کنٹرول کیے جانے والے کیمرہ ڈرونز بھی منظر عام پر آئے۔

2025 کے آخر میں ایک اینٹی ایئرکرافٹ گیران ڈرون کی اطلاعات بھی سامنے آئیں، جو ہدف کو نشانہ بنانے والا میزائل لے جاتا ہے۔ دسمبر کے آخر میں روسی وزیر دفاع آندرے بیلوسوف نے اعلان کیا کہ روس نے ایس-500 فضائی و میزائل دفاعی نظام سے لیس پہلا رجمنٹ تعینات کر دیا ہے۔ یہ نظام ہائپرسانک میزائلوں کو روکنے اور کم زمینی مدار میں موجود اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایس-500 کو ایس-300 اور ایس-400 کا متبادل نہیں بلکہ تکمیلی نظام قرار دیا جا رہا ہے، جو اسٹریٹجک میزائل دفاع اور زمینی فضائی دفاع کے درمیان خلا کو پُر کرتا ہے۔