امریکہ کی یورپی یونین سے بڑھتی ہوئی مایوسی، فنانشل ٹائمز

Trump Trump

امریکہ کی یورپی یونین سے بڑھتی ہوئی مایوسی، فنانشل ٹائمز

ماسکو(انٹرنیشنل ڈیسک)
امریکہ کو یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاہدے پر ٹیکسوں اور ریگولیٹری رکاوٹوں میں کمی کے حوالے سے سست روی پر شدید مایوسی کا سامنا ہے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق، واشنگٹن کے ایک سینیئر مذاکرات کار نے بتایا کہ برسلز معاہدے کے تحت مطلوبہ اقدامات تیزی سے نہیں کر رہا۔ یاد رہے کہ جولائی میں یورپی کمیشن کی صدر اُرسولا فان ڈیر لاین اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک تجارتی معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت یورپی یونین کی امریکہ کو برآمدات پر 15 فیصد ٹیرف عائد کیا گیا۔ معاہدہ یورپی یونین کو پابند کرتا ہے کہ وہ 750 ارب ڈالر مالیت کا امریکی تیل و گیس خریدے اور 600 ارب ڈالر امریکہ کی معیشت میں تین سال کے دوران سرمایہ کاری کرے۔ امریکی تجارتی نمائندہ جیمیسن گریئر نے اخبار کو بتایا کہ یورپی یونین نے امریکی مصنوعات پر ٹیرف ابھی تک کم نہیں کیے، جبکہ غیر ٹیرف رکاوٹیں اور پیچیدہ ضوابط اب بھی امریکی برآمدات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ ہمیشہ سے یورپی مصنوعات کو “وسیع رسائی” دیتا آیا ہے، لیکن جواب میں ایسا نہیں ہو رہا۔

انہوں نے مزید کہا کہ رواں برس کیے گئے مشترکہ اعلامیے کے باوجود دونوں فریقین کے درمیان موجود تمام مسائل حل نہیں ہوئے، جبکہ تجارت کا “غیر متوازن” ہونا ہمیشہ تنازعات کا باعث بنتا رہا ہے۔ گریئر جلد ہی یورپی یونین کے تجارتی کمشنر ماروش شیفچوِچ سے ملاقات کے لیے یورپ روانہ ہوں گے، جبکہ امریکی وزیر تجارت ہاورڈ لٹ نِک 24 نومبر کو برسلز میں یورپی وزرائے تجارت سے بات چیت کریں گے۔ امریکہ نے برسلز کو ایک شکایتی خط بھی ارسال کیا ہے اور ایک پانچ نکاتی لائحہ عمل کی تیاری جاری ہے۔ یورپی یونین نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکی صنعتی مصنوعات، سمندری غذا، سور کے گوشت اور بعض زرعی اجناس پر درآمدی ٹیرف کم کرے گی، مگر فنانشل ٹائمز کے مطابق اس فیصلے کی منظوری یورپی پارلیمنٹ میں کم از کم فروری سے قبل ممکن نہیں۔

Advertisement

ٹرمپ انتظامیہ کے ایک اہلکار نے الزام لگایا کہ یورپی یونین “جان بوجھ کر” معاملے کو تاخیر کا شکار کر رہی ہے، جس کے نتیجے میں ٹرمپ کے ساتھ حالیہ بہتر تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ معاہدہ کئی ماہ کی سخت مذاکراتی کشمکش کے بعد سامنے آیا تھا، تاہم یورپی عہدیداروں نے اس کے “عدم توازن” پر پہلے ہی تنقید کی ہے۔