امن منصوبہ رد کرنے پر یوکرین اسلحے اور انٹیلیجنس سے محروم ہوگا، امریکہ
ماسکو(انٹرنیشنل ڈیسک)
امریکہ نے یوکرین پر دباؤ بڑھاتے ہوئے اسے خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مجوزہ امن منصوبہ قبول نہ کیا تو اسے اسلحے اور انٹیلیجنس کے تعاون سے محروم کر دیا جائے گا۔ خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے جمعے کو اپنی رپورٹ میں اس معاملے سے واقف دو ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ واشنگٹن چاہتا ہے کہ کییف اگلے جمعرات تک اس فریم ورک پر دستخط کر دے۔ ذرائع کے مطابق اس سے قبل بھی ٹرمپ انتظامیہ نے اسی طرز کے دباؤ کے ذریعے یوکرین کو ایک ’ریئر ارتھز‘ معاہدہ کرنے پر مجبور کیا تھا۔ کیف نے جمعرات کے روز تصدیق کی کہ اسے امریکہ کی جانب سے ایک نیا مسودۂ امن منصوبہ موصول ہوا ہے، تاہم اس کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔ یوکرینی قیادت نے کہا کہ وہ اس مسودے پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے اور ’’امریکی فریق کے مطابق‘‘ یہ ڈرافٹ سفارتی عمل کو دوبارہ متحرک کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مجوزہ منصوبہ 28 نکات پر مشتمل ہے، جن میں یوکرینی افواج کا ڈونباس کے ان علاقوں سے انخلا شامل ہے جو اب بھی کییف کے کنٹرول میں ہیں، ملک کی فوج کو نمایاں حد تک کم کرنا، اور نیٹو میں شمولیت کی خواہش ترک کرنا۔
دوسری جانب اقوام متحدہ میں یوکرین کے مشن نے پہلے ہی منصوبے کے کئی اہم نکات مسترد کر دیے ہیں۔ یوکرین کی نائب مستقل نمائندہ کرسٹینا گیاووشن نے کہا کہ کییف کبھی بھی سابقہ یوکرینی علاقہ جات کو روس کا حصہ تسلیم نہیں کرے گا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ کسی فوجی اتحاد میں شمولیت یا ملک کی دفاعی صلاحیت محدود کرنا ’’ناقابلِ قبول‘‘ ہے۔ تاہم اس کے باوجود انہوں نے مسودے کی شقوں پر گفتگو کرنے کی یوکرینی آمادگی کو دہرایا۔ یوکرین کے مغربی یورپی حمایتیوں نے بھی مجوزہ امریکی منصوبے کی متعدد شقوں پر تحفظات ظاہر کیے ہیں اور کہا ہے کہ کسی بھی امن معاہدے کو ’’برسلز اور کییف دونوں کے مؤقف‘‘ کی عکاسی کرنی چاہیے۔ رپورٹس کے مطابق یورپی یونین اب ایک ایسا ’’جوابی منصوبہ‘‘ تیار کر رہی ہے جو یوکرین کے لیے زیادہ موافق ہو۔ اس تمام صورتحال پر ردّعمل دیتے ہوئے کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ یوکرین تنازع پر روس اور امریکہ کے درمیان مذاکرات میں کوئی نئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ روس مذاکرات کے لیے اب بھی تیار ہے، لیکن ماسکو کو ایسی کوئی اطلاع نہیں ملی کہ کییف امن منصوبے پر بات چیت کرنے پر رضامند ہوا ہو۔