اہم خبریں
تازہ ترین خبریں، باخبر تجزیے، اور عالمی حالات کی جھلک — صرف "صدائے روس" پر، جہاں ہر خبر اہم ہے!

پاکستان میں بجلی کا بل زیادہ آنے پر صارف میٹر ریڈر سے کیوں خفا ہوتے ہیں؟

meter reader

پاکستان میں بجلی کا بل زیادہ آنے پر صارف میٹر ریڈر سے کیوں خفا ہوتے ہیں؟

اسلام آباد (صداۓ روس)
پاکستان میں ہر ماہ آنے والے بجلی کے بل نہ صرف صارفین کی جیب پر بھاری پڑتے ہیں بلکہ اکثر ان کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز کر دیتے ہیں۔ جب بجلی کا بل معمول سے زیادہ آتا ہے تو عوام کی پہلی شکایت عموماً میٹر ریڈر سے ہوتی ہے۔ لیکن اس خفگی کی وجوہات کیا ہیں؟ اور اصل ذمہ دار کون ہوتا ہے؟ میٹر ریڈر وہ فرد ہوتا ہے جو ہر مہینے صارفین کے گھروں پر جا کر بجلی کے میٹر کی ریڈنگ لیتا ہے اور اس کی بنیاد پر بل مرتب کیا جاتا ہے۔ تاہم کئی بار صارفین شکایت کرتے ہیں کہ میٹر ریڈر نے درست ریڈنگ نہیں لی یا بغیر پڑھے اندازے سے بل بھیج دیا گیا۔ بعض صورتوں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ ریڈر موقع پر گیا ہی نہیں اور دفتر میں بیٹھ کر پرانی ریڈنگ کی بنیاد پر تخمینی بل جاری کر دیا گیا۔ اس طرح کے تخمینے اکثر حقیقی استعمال سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں جس پر صارفین ناراض ہو جاتے ہیں۔

بعض صارفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ میٹر ریڈر ریڈنگ لینے کے دوران کسی تکنیکی خرابی کو نظر انداز کر دیتا ہے، مثلاً خراب یا جام میٹر، یا بجلی چوری کا کوئی غیر معمولی نشان۔ جب ایسی چیزیں رپورٹ نہیں ہوتیں تو بعد میں جب درستگی کی کوشش کی جاتی ہے تو ذمہ داری صارف پر ڈال دی جاتی ہے، جس سے صارف کو مزید نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اکثر عملے کی کمی کا سامنا کرتی ہیں جس کی وجہ سے میٹر ریڈنگ کے نظام میں غیر سنجیدگی دیکھنے کو ملتی ہے۔ کچھ علاقوں میں میٹر ریڈرز کو اتنے زیادہ صارفین الاٹ کیے گئے ہوتے ہیں کہ وہ ایک دن میں سب کے گھروں تک نہیں پہنچ پاتے، نتیجتاً اندازے سے ریڈنگ درج کر دی جاتی ہے۔

دوسری طرف بجلی کے نرخوں میں اضافے، اضافی سرچارجز، فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز، اور متعدد ٹیکسوں کی موجودگی صارفین کے بل کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔ مگر چونکہ یہ تمام عوامل بل کے کاغذ پر میٹر ریڈنگ کے نیچے چھپے ہوتے ہیں، اس لیے عام صارف کی توجہ ریڈنگ لینے والے شخص پر مرکوز ہو جاتی ہے، اور یوں وہ براہ راست اپنی ناراضی کا اظہار اسی سے کرتے ہیں۔ بعض صارفین الزام عائد کرتے ہیں کہ کچھ میٹر ریڈر بل کم کروانے یا زیادہ کرنے کے بدلے رشوت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگرچہ بجلی کی کمپنیوں نے اس حوالے سے شکایات کے لیے ہیلپ لائنز اور شکایتی مراکز قائم کیے ہیں، مگر اکثر شکایات پر فوری عملدرآمد نہیں ہوتا، جس سے صارفین کی مایوسی اور عدم اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے۔ ماہرین تجویز دیتے ہیں کہ اگر بجلی کی کمپنیاں میٹر ریڈنگ کو خودکار نظام، مثلاً اسمارٹ میٹرز یا ریموٹ ریڈنگ ٹیکنالوجی کے ذریعے نافذ کریں، تو اس مسئلے پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے سرمایہ کاری اور سیاسی عزم درکار ہے جو فی الحال نظر نہیں آتا۔ آخرکار، جب تک نظام میں شفافیت اور احتساب قائم نہیں ہوتا، میٹر ریڈر ہی صارف کی مایوسی کا پہلا نشانہ بنتا رہے گا، چاہے وہ قصوروار ہو یا نہ ہو۔

Share it :