آزاد کشمیر میں احتجاج : حکومت کی غلط پالیسی کا نتیجہ

Kashmir Kashmir

آزاد کشمیر میں احتجاج : حکومت کی غلط پالیسی کا نتیجہ

اسلام آباد (صداۓ روس)
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر (آزاد جموں و کشمیر) میں ایک بار پھر شدید عوامی احتجاج نے جنم لیا ہے، جہاں جمعرات کو مسلسل چوتھے روز بھی مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری رہی۔ اس دوران پرتشدد جھڑپوں میں اب تک کم از کم 15 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں تین پولیس اہلکار بھی شامل ہیں، جبکہ درجنوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ یہ احتجاج عوامی تنظیم جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی (جے اے اے سی) کی کال پر 29 ستمبر سے جاری ہے، جس نے مختلف اضلاع میں زندگی کو مفلوج بنا دیا ہے۔ اس کمیٹی کی قیادت سرگرم کارکن شوکت نواز میر کر رہے ہیں۔ جے اے اے سی تاجروں اور سول سوسائٹی کی نمائندہ تنظیموں کا اتحاد ہے، جو مقامی سطح پر عوامی غصے کی سب سے بڑی آواز بن چکی ہے۔ پولیس کی جانب سے کئے گئے حالیہ حملوں میں کم از کم 12 نہتے مظاہرین شہید اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔ مظاہرین، جو بنیادی حقوق، سستی بجلی، آٹے کی سبسڈی اور اشرافیہ کے مراعات ختم کرنے جیسے مطالبات کر رہے تھے، پر پولیس اور رینجرز نے براہ راست فائرنگ کی، جسے عوام اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے بربریت قرار دیا ہے۔

Kashmir

Advertisement

حکومت نے مظاہرین کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی مظفرآباد بھیجی ہے، تاہم تاحال کوئی واضح پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ دوسری جانب 28 ستمبر سے پورے خطے میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بند ہے، جس کے باعث چار ملین سے زائد آبادی دنیا سے کٹ کر رہ گئی ہے۔ مظفرآباد اور دیگر شہروں میں بازار بند ہیں، ٹرانسپورٹ غائب ہے اور روزمرہ زندگی مکمل طور پر رکی ہوئی ہے۔ یہ بحران دراصل دو برس پرانے عوامی غصے کی توسیع ہے۔ مئی 2023 میں عوام پہلی مرتبہ مہنگی بجلی اور گندم کی شدید قلت کے خلاف سڑکوں پر نکلے تھے۔ بعد ازاں مختلف شکایات منظم شکل اختیار کرتی گئیں اور ستمبر 2023 میں جے اے اے سی کا باضابطہ قیام عمل میں آیا۔ مئی 2024 میں اس تحریک نے پہلی بڑی شدت اختیار کی جب احتجاجی مارچ کے دوران پولیس اور مظاہرین میں جھڑپوں سے کم از کم پانچ افراد جان سے گئے۔ اس وقت وزیرِاعظم شہباز شریف نے مداخلت کرتے ہوئے آٹے کی قیمتوں میں کمی اور بجلی کے نرخ کم کرنے کے لیے اربوں روپے کی سبسڈی کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد وقتی سکون بحال ہوا۔

تاہم امن زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ اگست 2025 میں جے اے اے سی نے ایک بار پھر احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا، اس بار اس کے مطالبات محض معاشی مسائل تک محدود نہیں رہے بلکہ انہوں نے سیاسی و انتظامی شکایات کو بھی اجاگر کیا۔ حکومت کی جانب سے ان 38 نکاتی مطالبات پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث موجودہ احتجاج شدت اختیار کر گیا ہے۔