خبریں ہوں یا تجزیے — عالمی منظرنامہ، صرف "صدائے روس" پر۔

LN

کشمیر کی سرزمین اور ثفاقت کے ساتھ کھلواڑ برداشت نہیں کریں گے؟

شاہ نواز سیال

پانچ آگست 2019ء کو جموں و کشمیر کے عوام نے کشمیر کی ریاستی خصوصی حیثیت کے قانون آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-A کی منسوخی کے بعد جس طرح ظلم و ستم سہے اور ڈٹ کر مقابلہ کیا اس نے جموں و کشمیر کے عوام کے اندر بے چینی، غصہ اور سیاسی اضطراب کو جنم دیا ہے یہ وہ دفعات تھیں جنہوں نے ریاست جموں و کشمیر کو ایک مخصوص خودمختار ریاست کی حیثیت فراہم کی تھی ان کی منسوخی کے بعد نہ صرف ریاست کی خصوصی شناخت مٹ گئی بلکہ کشمیری عوام کو اپنے ہی گھر میں اجنبی بنا دیا گیا۔
اب چھ سال گزرنے کے بعد بھی حالات نارمل ہونے کے بجائے مزید بگڑ چکے ہیں حالیہ دنوں میں بھارتی لوک سبھا کے اندر جو آوازیں سنائی دی گئیں ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ کشمیری عوام کے زخم ابھی بھرے نہیں بلکہ مزید گہرے ہو رہے ہیں۔
بھارتی لوک سبھا میں نیشنل کانفرنس کے ممبر آف پارلیمنٹ جموں و کشمیر سید آغا روح اللہ مہدی کی تقریر پوری جموں و کشمیر کی آواز تھی جس میں سید آغا روح اللہ مہدی نے واضح الفاظ میں کہا کہ اب کشمیری عوام خاموش تماشائی نہیں رہیں گے پچھلے کئی برسوں سے کشمیریوں پر طاقت کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے آئے روز گرفتاریاں، گھر مسمار کرنا اور انٹیلیجنس رپورٹس کو جواز بنا کر کاروائیاں کرنا عام بات بن چکی ہے مگر اب لوگ ان ہتھکنڈوں کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کریں گے ۔
آغا روح آللہ مہدی نے اپنی تقریر کے دوران بھارتی ایجنسیوں پر براہِ راست تنقید کرتے ہوئے کئی سوالات اٹھا دیے ہیں کہ جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے تو انٹیلیجنس ایجنسیاں اپنی ناکامی کا بوجھ قبول کرنے کے بجائے فوراً کسی اور پر الزام لگا دیتی ہیں بالخصوص کشمیری نوجوانوں پر بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے پھر گھروں پر چھاپے مارنا اور عام لوگوں کو دہشتگرد قرار دینا معمول بن چکا ہے۔
آغا روح اللہ مہدی نے خاص طور پر پہلگام حملے کے بعد ہونے والی کشمیر میں ناجائز کارروائیوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بارہ کشمیری گھروں کو بموں کے ذریعے اڑا دیا گیا ہے۔
آغا روح اللہ مہدی نے بھارتی حکومت، خفیہ اداروں اور سیکیورٹی فورسز سے یہ مطالبہ کیا کہ کشمیریوں ساتھ مجرموں جیسا سلوک نہ کیا جائے اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کی جائے یہ تقریر دراصل اس تلخ حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں قانون کی جگہ طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے اور کشمیری عوام اب اس رویے کو مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں –
آغا روح اللہ مہدی نے اپنی تقریر میں کہا کہ “یہ کون سا قانون ہے کہ آپ جب چاہیں کشمیریوں کو روند ڈالیں؟ اب ایسا نہیں چلے گا! ان کے غصے میں لپٹے الفاظ صرف ایک فرد کا احتجاج نہیں بلکہ پورے وادی کشمیر کی ایک اجتماعی چیخ بن کر سنائی دی۔
جموں و کشمیر کے سیاسی مستقبل، ثقافتی شناخت اور عوامی حقوق کے حوالے سے بھارتی لوک سبھا میں ایک نئی لہر پیدا ہو چکی ہے عوام اتحاد کے رہنما ممبر بھارتی لوک سبھا انجینئر عبد الرشید شیخ اور روح اللہ مہدی نے جس جرأت کے ساتھ بھارتی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی ہے وہ دہائیوں سے دبائے گئے کشمیری عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔

انجینئر عبد الرشید شیخ حریت رہنما مرحوم سید علی حسن گیلانی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ تین بار لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے مگر ہر بار جب انہوں نے کشمیری عوام کا مقدمہ اُٹھایا اُنہیں پابندِ سلاسل کر دیا گیاان کی آواز کو دبایا گیا بالکل اسی طرح جیسے آج کشمیریوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انجینئر عبد الرشید شیخ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اگر بی جے پی بھارت کو ہندو راشٹر بنانا چاہتی ہے تو ضرور بنائے ہمیں کوئی اعتراض نہیں مگر وہ کشمیر کی سرزمین، اس کے کلچر، شناخت اور اس کی جغرافیائی حیثیت سے کھلواڑ کسی صورت برداشت نہیں کریں گے یہ بیان اس بات کی علامت ہے کہ کشمیری عوام بھارت کی مذہبی یا نظریاتی سیاست کا حصہ نہیں بننا چاہتےان کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ ان کی سرزمین اور ان کی تہذیب پر بھارت کی اجارہ داری کسی صورت قبول نہیں۔
انجینئر عبد الرشید نے واضح الفاظ میں کہا کہ کشمیر کی نئی نسل باشعور ہے اور اب ظلم سنسرشپ اور دباؤ سے کشمیریوں کو خاموش نہیں کرایا جا سکتا وہ سیاسی، جمہوری اور قانونی دائرے میں رہ کر اپنا مقدمہ لڑتے رہیں گے۔
سید آغا روح اللہ مہدی نے اپنی تقریر میں مطالبہ کیا کہ آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کی بحالی کشمیریوں کا بنیادی حق ہے کیونکہ یہی دفعات جموں و کشمیر کی خودمختاری اور شناخت کا تحفظ کرتی ہیں یہی مطالبہ وزیراعلیٰ مقبوضہ جموں و کشمیر عمر عبداللہ اور سابقہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی کر چکے ہیں جو بارہا کہہ چکے ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ کیا گیا آئینی معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کر دینا تاریخی ناانصافی ہے۔
ممبر لوک سبھا انجینئر عبد الرشید شیخ اور سید آغا روح اللہ مہدی کی تقاریر محض سیاسی بیانات تک نہیں ہیں بلکہ یہ کشمیری عوام کے اجتماعی ضمیر کی آواز ہیں ان تقاریر کے ذریعے نہ صرف بھارت کے اندر بلکہ دنیا کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کی آئینی حیثیت بھارت نے 5،اگست 2019 زبردستی ختم کی ۔
پاکستان کشمیر اور کشمیری عوام کے ساتھ ان کی ثقافت اور شناخت کے تحفظ کے لیے ہر فورم پر ہمیشہ آواز بلند کرتا رہے گا کیونکہ ہم پاکستانیوں کا جموں و کشمیر سے اٹوٹ رشتہ ہے –
بھارت میں اپوزیشن جماعت
سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے مودی حکومت کی پالیسیوں پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ “مودی دوسروں کو منانے چلے تھے،
اب اپنا گھر روٹھا جاررہا ہے۔” ان کا یہ بیان صرف سیاسی طنز نہیں بلکہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ بھارت کے اندر بھی اب مودی حکومت کی کشمیر پالیسی پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
کشمیر میں اس وقت ایک نیا سیاسی شعور جنم لے چکا ہے نوجوان نسل جانتی ہے کہ ان کے حقوق کیا ہیں؟ اور وہ خاموش تماشائی بن کر ظلم و استحصال کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں حالیہ واقعات اور لوک سبھا میں اٹھنے والی آوازیں اس بات کا اشارہ ہیں کہ کشمیری عوام کا مقدمہ اب حل ہونے کو قریب یے ۔
بھارت کو یہ سمجھنا ہوگا اگر بھارت واقعی امن چاہتا ہے تو اُسے کشمیریوں کو اُن کا حق دینا ہوگا-

شئیر کریں: ۔