ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے تیزی سے فروغ نے انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں۔ اب مصنوعی ذہانت صرف سوالات کے جوابات دینے یا تفریح تک محدود نہیں رہی، بلکہ عام انسانوں کے لیے ایک مؤثر، ذہین اور مددگار معاون کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔ ایسا ہی ایک دلچسپ اور حیران کن واقعہ حال ہی میں اس وقت سامنے آیا جب ایک ریڈٹ صارف نے دعویٰ کیا کہ چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے اس نے 2,500 امریکی ڈالر کی ناقابل واپسی رقم واپس حاصل کر لی۔
آج نیوز کی رپورٹ کے مطابق، ریڈٹ پر “Never take no for an answer” کے عنوان سے کی گئی پوسٹ میں ایک صارف نے اپنی کہانی شیئر کی جس میں بتایا کہ وہ ذہنی بیماری “جنرلائزڈ اینزائٹی ڈس آرڈر” (GAD) کی وجہ سے بین الاقوامی سفر پر نہ جا سکا۔ اس نے میڈیلین، کولمبیا کی فلائٹ اور ہوٹل کی ایڈوانس بکنگ کر رکھی تھی، جس پر اس کا تقریباً 2,500 ڈالر خرچ ہو چکا تھا، مگر چونکہ اس نے کوئی ٹریول انشورنس نہیں لی تھی، اس لیے اسے بتایا گیا کہ یہ رقم ناقابل واپسی ہے۔
مایوسی کے عالم میں اس صارف نے چیٹ جی پی ٹی-4o کی مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ اس نے چیٹ جی پی ٹی کو اپنی میڈیکل رپورٹ، بیماری کی نوعیت اور متعلقہ تفصیلات فراہم کیں۔ چیٹ جی پی ٹی نے ان معلومات کی بنیاد پر ایک مدلل، مؤثر اور ہمدردانہ اپیل کا خط تیار کیا، جو اس نے Expedia اور ہوٹل کو ارسال کر دیا۔
پوسٹ کے مطابق ابتدا میں دونوں اداروں نے اپنی پالیسی کا حوالہ دے کر رقم واپس کرنے سے انکار کر دیا۔ تاہم، چیٹ جی پی ٹی کی تیار کردہ اپیل کے بعد ہوٹل انتظامیہ نے ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رقم واپس کر دی۔
فلائٹ کی رقم واپس لینا کچھ زیادہ مشکل ثابت ہوا، کیونکہ ایئرلائن کی پالیسی صرف موت یا شدید جسمانی بیماری جیسے حالات میں ری فنڈ کی اجازت دیتی ہے۔ تاہم، جب صارف نے ایئرلائن کا یہ جواب چیٹ جی پی ٹی کو دکھایا تو اس نے ایک نیا، زیادہ مضبوط خط تیار کیا جس میں بتایا گیا کہ ذہنی صحت کے مسائل بھی اتنے ہی سنگین ہو سکتے ہیں جتنے جسمانی امراض، اور بعض اوقات سفر پر ان کا اثر زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔
حیرت انگیز طور پر، ایئرلائن نے بھی صرف ایک گھنٹے کے اندر اس اپیل کو منظور کرتے ہوئے مکمل رقم واپس کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی۔
صارف نے اپنی پوسٹ میں لکھا، “اگر چیٹ جی پی ٹی نہ ہوتا تو مجھے شاید کسی وکیل کی خدمات حاصل کرنی پڑتیں۔ اس نے مجھے 2,500 ڈالر کے نقصان سے بچا لیا۔”
یہ واقعہ سوشل میڈیا اور ریڈٹ پر وائرل ہو گیا، جہاں کئی صارفین نے چیٹ جی پی ٹی کو ‘ذاتی وکیل’ یا ‘ڈیجیٹل معاون’ قرار دیا۔ ایک صارف نے تبصرہ کیا، “یہ واقعی حیرت انگیز ہے، اے آئی کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے استعمال کرنا مستقبل کی راہ ہے۔”
تاہم، کچھ افراد نے اس کہانی کی صداقت پر سوال اٹھائے۔ چند صارفین نے مطالبہ کیا کہ ای میلز کے اسکرین شاٹس شیئر کیے جائیں تاکہ حقیقت کی تصدیق ہو سکے۔ کچھ نے اخلاقی پہلو پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر بیماری کی شدت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تو یہ درست عمل نہیں۔
ایک صارف نے لکھا، “مسئلہ یہ نہیں کہ اس نے کیا کیا، بلکہ یہ ہے کہ چیٹ جی پی ٹی جیسے ٹولز ان افراد کے لیے کتنے قیمتی ہو سکتے ہیں جو اپنے حقوق کے لیے خود مؤثر انداز میں بات نہیں کر پاتے۔ ہاں، اگر اس میں غلط بیانی کی گئی ہو تو یہ اخلاقی طور پر قابل اعتراض ہے۔”
یہ واقعہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ مصنوعی ذہانت اب صرف معلومات تک محدود نہیں بلکہ انسانی زندگی کے عملی مسائل کے حل میں بھی ایک مؤثر کردار ادا کر رہی ہے، بشرطیکہ اس کا استعمال ذمہ داری اور اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر کیا جائے۔