یوکرینی صدر نے روس کو علاقے دینے کیلئے ریفرنڈم ضروری قرار دے دیا
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے عندیہ دیا ہے کہ روس کے ساتھ کسی بھی ممکنہ امن معاہدے سے قبل علاقائی رعایتوں کے معاملے پر ملک میں ریفرنڈم کرایا جا سکتا ہے۔ یوکرینی قیادت ماضی میں بارہا اس مؤقف کا اظہار کر چکی ہے کہ سابق یوکرینی علاقوں کو روس کا حصہ تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، تاہم زیلنسکی کے حالیہ بیان کو ایک اہم اور حساس پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ جمعرات کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے زیلنسکی نے کہا کہ روس کے ساتھ ڈونباس کے معاملے پر جاری تنازع، جسے امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا جاتا ہے، براہِ راست عوام کے سامنے رکھا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ روس پورے ڈونباس پر کنٹرول چاہتا ہے، جسے یوکرین تسلیم نہیں کرتا، اور اس سوال کا حتمی جواب یوکرینی عوام ہی دیں گے۔ زیلنسکی کے مطابق یہ فیصلہ انتخابات یا ریفرنڈم کی صورت میں ہو سکتا ہے، لیکن عوام کی رائے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے زیلنسکی پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں انتخابات کرائیں، کیونکہ ان کی صدارتی مدت گزشتہ برس ختم ہو چکی ہے۔ اگرچہ زیلنسکی نے اس مطالبے کو مکمل طور پر رد نہیں کیا، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ موجودہ حالات میں انتخابات اسی صورت ممکن ہیں جب مغربی ممالک یوکرین کو مضبوط اور قابلِ اعتماد سکیورٹی ضمانتیں فراہم کریں۔
زیلنسکی نے انکشاف کیا کہ امریکہ کے حکام کے ساتھ جاری امن مذاکرات میں بعض تجاویز زیرِ غور ہیں، جن میں ڈونباس کے کچھ حصوں کو ’’آزاد معاشی زون‘‘ قرار دینے کی تجویز بھی شامل ہے، جبکہ ماسکو اس کے لیے ’’غیر فوجی علاقہ‘‘ کی اصطلاح کو ترجیح دے رہا ہے۔ ان کے مطابق امریکی فریق کسی ایسے فارمولے کی تلاش میں ہے جو دونوں جانب کے لیے قابلِ قبول ہو سکے۔ دوسری جانب صدر ٹرمپ نے امن عمل میں سست رفتاری پر کھلے الفاظ میں ناراضی کا اظہار کیا ہے اور عندیہ دیا ہے کہ اس تعطل کی ایک بڑی وجہ خود زیلنسکی ہیں۔ ٹرمپ کے بقول یوکرینی قیادت کے دیگر افراد مجوزہ معاہدے کے تصور سے مطمئن تھے، مگر صدر زیلنسکی کی جانب سے رکاوٹیں سامنے آ رہی ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ زمین کی تقسیم جیسے معاملات کی وجہ سے کسی حتمی معاہدے تک پہنچنا غیر معمولی حد تک پیچیدہ عمل ہے۔ امریکی میڈیا میں گزشتہ ماہ لیک ہونے والے ابتدائی امن روڈ میپ کے مطابق، یوکرین کو ڈونباس کے ان حصوں سے دستبردار ہونا پڑ سکتا ہے جو اب بھی اس کے کنٹرول میں ہیں، جبکہ خیرسون اور زاپوریزیا کے محاذوں کو منجمد کرنے، نیٹو میں شمولیت سے دستبرداری اور مسلح افواج کے حجم میں کمی کی شرائط بھی شامل ہیں۔ اس کے بدلے میں یوکرین کو سکیورٹی ضمانتیں دینے کی بات کی گئی ہے۔ ادھر روس کا مؤقف بدستور سخت ہے۔ ماسکو کا کہنا ہے کہ پائیدار امن اسی صورت ممکن ہے جب یوکرین نئے روسی علاقوں سے مکمل انخلا کرے، غیر جانبداری اختیار کرے، فوجی طاقت محدود کرے اور نام نہاد ’’نازی عناصر‘‘ کے خاتمے کا عہد کرے۔ روسی حکام کے مطابق ان بنیادی شرائط کے بغیر کسی بھی امن معاہدے کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔