ہومپاکستانافغانستان کی صورتحال کو پاکستانیوں سےبہتر کوئی نہیں جانتا، ماریہ زخاروا

افغانستان کی صورتحال کو پاکستانیوں سےبہتر کوئی نہیں جانتا، ماریہ زخاروا

ماسکو اشتیاق ہمدانی

پاکستان اور پاکستانی عوام نے اپنی تاریخ میں انتہا پسندی اوردہشت گردی کے خلاف مزاحمت کی، افغانستان کے پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کو اپنے ہاں قبول کیا، افغانستان کی صورتحال کو پاکستان اور پاکستان کے عوام سےبہتر کوئی نہیں جانتا، یہ بات اج ماسکو میں ماریہ زخاروا نے کہی-

روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے آج اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں ہمارے نمائندے اشتیاق ہمدانی کے قازقستان کی صورت حال سے متعلق ایک سوال کے جواب کہ پاکستان کی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف کاوشوں کا حوالہ دیا. ماریا زاخارووا کا کہنا تھا کہ افغانستان کی صورتحال کو پاکستان اور پاکستان کے عوام اس سےبہتر کوئی نہیں جانتا، پاکستان اور پاکستانی عوام نے اپنی تاریخ میں انتہا پسندی، اوردہشت گردی کے خلاف مزاحمت کی اور افغانستان کے پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کو اپنے ہاں قبول کیا.

اشتیاق ہمدانی نے پوچھا کہ :
قازقستان کی صورت حال نے ثابت کیا کہ روس نے افغانستان کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ماسکو فارمیٹ: نام سے منظم مذاکرات کا جو اہتمام کیا تھا وہ بےمقصد نہیں تھا. ۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ قازقستان میں پیدا ہونے والی صورت حال کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ ملوث تھا۔ میرا خیال ہے کہ اگر روسی سفارتکاری اور CSTO ممالک قازقستان کو تحفظ نہ فراہم کرتے تو جمہوریہ قازقستان کی صورت حال اور بھی خراب ہو سکتی تھی۔ اب جبکہ خطرہ اتنا واضح ہو چکا ہے تو کیا روس کے CIS ممالک جو CSTO کا حصہ نہیں، انہیں اپنے عوام کے تحفظ کے لیے CSTO میں مدعو کرنے کا ارادہ رکھتا ہے؟

روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے جواب دیا کہ:
مشترکہ سلامتی کونسل ایک تنظیم ہے جو کسی بھی ملک کو تنظیم میں شمولیت کی پیشکش نہیں کرتی. بلکہ کوئی بھی ملک جو مشترکہ سلامتی معاہدہ تنظیم میں شمولیت اختیار کرنا چاہتا ہے وہ اس سے متعلق اپنی خواہش کا اظہارکرتا ہے. اس تنظیم کے رکن ممالک جو اس معاہدہ کے دستخط کندہ ہیں اس سے متعلق اپنی تجویز و آرا پیش کر سکتے ہیں.

ماریہ ذخارووا نے اشتیاق ہمدانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ –

میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی کیونکہ آپ نے اس مسئلے کو دونوں پہلوں سے دیکھا کہ روس اس خطے میں مشترکہ سلامتی کو اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے اور اس کے حوالے سے ایسے ٹھوس اقدامات کرتا ہے جس سے خطے میں قیام امن ممکن ہو. ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کیونکہ ہر کوئی اپنی سلامتی کا سوچتا ہے، لیکن روس قومی سلامتی کے علاوہ ہمسایہ ممالک اور خطے کی سلامتی کو نظر انداز نہیں کرتا.

ماریہ ذخارووا نے مغربی میڈیا کا نام لئے بغیر کہا کہ

بدقسمتی سے ہماری اس کاوش کو کچھ ممالک کے لوگ سوویت یونین سے منسلک کرتے ہیں جیسا کے حال ہی میں ہم نے قزاقستان میں بدامنی اور انتشار کی صورت حال کوقابو کیا. روس نے قزاقستان کی مدد کی لیکن اسے افغانستان میں ہونے والی صورت حال سے جوڑنے کی کوشش کی گئی، جو کہ انتہائی غلط پروپیگنڈا ہے، میں سمجھتی ہوں کہ یہ انتہائی غلط تجزیہ ہے لیکن اس بارے میں آپ بلکل درست ہیں کے صورت حال واضح ہے اور آپ نے تصویر کے دونوں رخ دیکھنا اور سمجھنا چاہیے ، اور ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ قازقستان میں صورت حال انتہائی دشوارتھی. اس ہی طرح امریکا اور نیٹونے افغانستان پر پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں-
ماریہ ذخارووا نے پاکستان کا زکر کرتے ہوئے کہا کہ:

افغانستان کی صورتحال کو پاکستان اور پاکستان کے عوام اس سےبہتر کوئی نہیں جانتا، کیونکہ پاکستان اور پاکستانی عوام نے اپنی تاریخ میں انتہا پسندی، اوردہشت گردی کے خلاف مزاحمت کی، افغانستان کے پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کو اپنے ہاں قبول کیا،

ماریہ ذخارووا نے مذید کہا کہ

مشترکہ سلامتی معاہدہ کے رکن ممالک اور شنگھائی تنظیم کے ممالک سمیت افغانستان کے ہمسایہ ممالک بھی اس بات کو جانتے ہیں کہ اگرافغانستان میں منفی قوتوں کی روک تھام نہ کی گئی جس سے افغانستان عدم استحکام کا شکار ہوا تو دنیا کے امن کو سنگین خطرات پیدا ہوں گے. میں ایک بار پھر کہنا چاہوں گی کہ ہمیں افغانستان کے حالات کو عالمی تناظر میں دیکھنا ہوگا.

Facebook Comments Box
انٹرنیشنل