از فیض عالم
کراچی پاکستان
بہت پرانے وقتوں کا زکر ہے. ایک بادشاہ شکار کھیلتا ہوا بہت گھنے جنگل میں کھو گیا، شدید پیاس کے عالم میں راستہ تلاش کرتا کرتا وہ ایک جگہ پہنچا، جہاں ایک لکڑہارہ لکڑیاں کاٹ رہا تھا۔اس لکڑہارے نے بادشاہ کی مدد کی، پانی پلایا اور جنگل سے باہر نکلنے کا راستہ بھی بتایا۔ بادشاہ نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ نیک انسان تم میرے محل ضرور آنا. میں تمیں انعام دینا چاہتا ہوں۔
کچھ دنوں بعد وہ لکڑہارا بادشاہ کے محل کی جانب یہ سوچ کر چلنے لگا کہ اگر بادشاہ نے مجھ سے انعام کی فرمائش پوچھی تو میں بادشاہ سے کوئی ایسی جگی مانگوں گا, جہاں بہت سے درخت ہوں پھر درختوں کی لکڑیوں کو کاٹ کر کوئلہ بناؤں گا اور بازار میں بیچوں گا اس طرح میں زیادہ پیسے کما سکوں گا۔ یہی سوچتے سوچتے وہ محل تک پہنچا گیا۔
دربان کو اپنا تعارف کروایا اور پھر بادشاہ نے اسے اپنے روبرو پیش ہونے کی اجازت دے دی۔رحم دل بادشاہ نے کہا، مانگو اے نیک دل انسان کیا مانگتے ہو؟ لکڑہارے نے اپنے دل کی خواہش بادشاہ سلامت کے سامنے ظاہر کر دی۔ بادشاہ نے ایک لمحے کو کچھ سوچا پھر مسکرا کر وزیر سے کہا کہ میرا چندن کا باغ جہاں تاحد نگاہ چندن کے درخت ہی درخت ہیں اس کے نام کر دو۔
لکڑہارے نے بادشاہ کے دربار سے من چاہا انعام وصول کر کے واپسی کی راہ لی۔ اس نے جو اتنا بڑا، درختوں سے بھرا باغ دیکھا تو مارے خوشی کہ سوچنے لگا کہ اب میں چند ہی دنوں میں امیر ہو جاؤں گا۔ دن میں درخت کاٹتا اور رات کو ان کا کوئلہ بناتا اور اگلے دن بازار میں بیچ آتا. یوں بہت عرصہ گزر گیا کوئی خاطر خواہ منافع نہ ہوسکا۔ اب لکڑ ہارا بہت پریشان ہوا کیوں کہ اب اکا دکا ہی درخت باقی بچے تھے اور وہ وہیں تھا جہاں سے چلا تھا۔ نہ آمدنی میں کوئی خاص اضافہ ہوا اور نہ ہی طرز زندگی بدلا۔
ایک دن یوں ہی بادشاہ کو خیال آیا کہ کیوں نہ لکڑہارے سے ملنے جاؤں، وہ تو اب ایک امیر کبیر آدمی بن گیا ہوگا۔ کیا پتا بہترین سی رہائش بھی بنا لی ہو۔ بادشاہ جب چندن کے باغ کے پاس پہنچا تو کیا دیکھا، مارے صدمے کے وہ زمین پر بیٹھ گیا۔ آدھے سے زیادہ باغ جل چکا تھا، دور دور تک سیاہی پھیلی تھی اور وہ جگہ خوفناک ویرانے کا منظر پیش کر رہی تھی۔بادشاہ نے لکڑہارے سے پوچھا ارے یہ تم نے کیا کیا ہے؟
لکڑہارے نے کہا۔ بادشاہ سلامت میں نے سوچا تھا کہ درخت کاٹ کر لکڑیوں سے کوئلہ بنا کر بیچوں گا، تو میری قسمت بدل جائے گی۔ سارے درخت کاٹ دیے اب کچھ ہی بچے ہیں، مگر آمدنی تو وہی رہی جو پہلے ہوتی تھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے جنگل میں کوئلہ بناتا اب اس باغ میں بناتا ہوں۔ بادشاہ ایک لمحے میں ساری بات سمجھ گیا اور کہا یہ جو آدھا درخت یعنی کچھ میٹر لکڑی پڑی ہے۔ جاؤ اسے بازار میں لے کر جاؤ اور بیچو۔
لکڑہارہ بادشاہ کا حکم ماننے پر مجبور تھا، سو گیا اور چندن کی لکڑی آواز لگا کر بیچنے لگا۔ ایک ساتھ ہی کئی خریدار آگئے، یہاں تک کے لکڑی کی بولیاں لگنے لگیں اور آخر کار سب سے زیادہ دام لگانے والے کو اس نے وہ چندن کی کچھ میڑر لکڑی بیچ دی۔ اتنے ہزار اشرفیاں ایک ساتھ اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ واپس آیا اور بادشاہ سے کہا کہ اتنی سی لکڑی اتنے مہنگے داموں بکی ہے اور میں نے کوئلہ بنا کر ساری لکڑی برباد کر دی۔
بادشاہ نے کہا میں نے یہ باغ تمہیں اس لیے دیا تھا کہ تم کچھ درختوں کی مدد سے نئے درخت اگاؤ گے اور کچھ درختوں کی لکڑی بیچ کر امیر بن جاؤ گے لیکن تم نے تو اپنی بے وقوفی سے سارا باغ ہی برباد کر ڈالا۔ اب سوائے پچھتانے کے لکڑہارے کے پاس کچھ بھی نہ بچا تھا۔ اس کہانی سے ہم نے دو سبق سیکھے ایک تو یہ کہ انسان کی روح وہ چندن کا باغ ہے اور اس کی سانسیں چندن کے درخت ہیں۔ ان درختوں کو ہم برے کاموں میں جلا کر کوئلہ بنا دیتے ہیں۔ ساری سانسیں نفرت،جھوٹ، لالچ و حرص اور حسد و بدی میں جلا کر ہمیں یہ ہوش ہی نہیں ہوتا کہ جس طرح ایک درخت سے دوسرے درخت اگائے جا سکتے تھے، ایسے ہی ان چلتی سانسوں کو امید، بھروسہ، ہمدردی،رحم دلی، اخلاص، سچائی اور نیکی میں لگا کر مزید کتنی زندگیوں کو فائدہ پہنچایا جا سکتا تھا۔ جب بہت ہی کم سانسیں بچتی ہیں تو ہمیں یاد آتا ہے کہ ہمارے پاس تو کچھ باقی ہی نہیں بچا سوائے پچھتانے کے۔
دوسرا سبق جو ہم نے اس کہانی سے سیکھا وہ یہ ہے کہ کبھی کبھی اللہ ہمیں ہماری من چاہی خواہش سے کہیں بڑھ کر عطا کر دیتا ہے مگر ہم اپنی کم علمی اور بے وقوفی کے باعث اس کی عطا کر دہ نعمت کو برباد کر دیتے ہیں۔ اللہ جس لیے ہمیں وہ نعمت دیتا ہے، وہ ہم بھول بیٹھتے ہیں یا پھر اس لکڑہارے کی طرح نعمت ملنے کا اصل مقصد اور اسے استعمال کرنے کا طریقہ معلوم نہیں کر پاتے اور آخر میں تہی داماں ہوجاتے ہیں وہ نعمت ہم سے چھین لی جاتی ہے۔
حاصل کلام یہ کہ روح کے باغ کو سیراب کریں نیکی سے اور ان (سانسوں) درختوں کو برے کاموں میں جلنے نہ دیں بلکہ اچھے کاموں سے مزید درخت اگائیں یعنی مزید زندگیوں کے لیے فائدہ مند بنیں اور جب اللہ خواہش و حیثیت سے زیادہ عطا کر دے تو اس نعمت کی قدر کریں، اس کو صحیح طور پر استعمال کریں۔
مومن بیوقوف نہیں ہوتا بلکہ فہم و فراست، سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے والا ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں بےوقوفی کو معصومیت کے زمرے میں رکھ کر ایسے لوگوں کو بہت اچھا سمجھا جاتا ہے، جب کہ بےوقوفی ایک بدبختی ہے، کیوں کہ بےوقوف انسان نہ صرف خود کو بلکہ دوسروں کو بھی سوائے نقصان کے کچھ نہیں دیتا، بلکل اس لکڑہارے کی طرح۔ نعمتوں کی قدردانی شکر اور ان کی حفاظت عقل و دانش سے کریں تاکہ آپ کو نعمتوں سے محروم کرنے کی بجائے مزید نعمتوں سے نوازا جائے۔
وما علینا الاالبلاغ