ہومکالم و مضامینپاکستان عملی تعلیم کی طرف گامزن

پاکستان عملی تعلیم کی طرف گامزن

شاہ نواز سیال
کل صبح کالج پہنچا تو دیکھا بچوں کے ہاتھ میں پیک شدہ گفٹس موجود تھے وہ ہنستے مسکراتے کلاسز کی طرف جارہے تھے دریافت کیا تو پتہ چلا بچوں نے چلڈرن ہسپتال جانا ہے گفٹس تقسیم کرنے پھر اس کے بعد سپیشل بچوں میں بھی گفٹس تقسیم کریں گے گفٹس تقسیم کرنے والے بچوں میں سال اول اور سال دوم کے بچے شامل تھے بچوں میں اس طرح کی ذہن سازی کرنا قابل ستائش عمل ہے –

عموماً بچوں کی نفسیات اس بات کی متقاضی ہوتی ہے کہ انھیں عملی نیکی طرف راغب کیا جائے اور ان کے اندر کے دلی احساسات کو سمجھا جائے۔ میں ہمیشہ اس بات کا حامی رہا ہوں کہ استاد کا کام فقط بچوں کو پڑھانا نہیں ہے۔ بلکہ انکی تربیت کے ساتھ ساتھ معاشرے کا اہم فرد بنانے کے ساتھ انھیں معاشرے کے لئے فائدہ مند بھی بنانا ہے۔ یہ کام صرف استاد نہیں بلکہ استاد کی صورت اتالیق کرتا ہے۔ اس لئے استاد کو استاد کی بجائے اتالیق کہنا چاہئے جو بچوں کی تربیت کو اپنا نصب العین سمجھتا ہے۔ انسان انسان سے کوسوں دور ہوتا جارہا ہے اور ایک دوسرے سے ڈر رہا ہے۔ انسانوں کے معاشرے میں درندگی کی صفات پیدا ہو جانا سماج کی بڑھوتری کے لئے خطرہ ہے۔ اور سماج کو سماج دوست انسانوں سے روشناس کرانا استاد اور اسکی اتالیقی صلاحیتوں کا غماز ہے۔ ایسے استاد معاشرے کی مردہ روح میں دوبارہ جان بھرتے ہیں۔ اور اسے ایک مثالی سماج بناتے ہیں۔

ڈائریکٹر پنجاب گروپ آف کالجز ملتان پروفیسر اسامہ بشیر قریشی, پروفیسر نازیہ فیض صاحبہ اور ان کی پوری ٹیم تعلیم کے ساتھ ساتھ نئ نسل کی آبیاری کرنے میں مصروف عمل ہے – کچھ ادارے معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی مشکل آن پڑے یا حکومت عوامی فلاح و بہبود کے معاملات کو نظرانداز کرے تو یہ ادارے معاشرے میں بسنے والے لوگوں کا سہارا بنتے ہیں۔ یہی ادارے معاشرے کا حسن ہوتے ہیں۔ تاریخ کی اولین داستانوں سے لے کر موجودہ دور تک ایسے کئی ادارے یا شخصیات ہیں جو حکومت وقت کا سہارا بنتے ہیں اور عوام الناس کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے وسائل پیدا کرتے ہیں۔

یہ ریاستی ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی بہتری کے لیے بھی اپنی خدمات دیتے ہیں۔ چاہے کوئی ملک پسماندہ ہو، ترقی پذیر ہو یا ترقی یافتہ، ان اداروں کی موجودگی وہاں اپنی اہمیت رکھتی ہے۔ کچھ اداروں کا موجود ہونا ملک و قوم کی ترقی کے لیے راستے ہموار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ جیسے ترقی یافتہ خطے میں بھی بے شمار ادارے کام کر رہے ہیں۔

ان اداروں کی تشکیل کے پیچھے کسی نا کسی شٰخص کا ایک خواب چھپا ہوتا ہے جو ان کے قیام کی وجہ بنتا ہے۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جس کی معیشت اکثر خسارے میں رہتی ہے۔ ملک کا نظام چلانے کے لئے حکومتوں کو اندرونی اور بیرونی مالی اداروں قرض لے کر گزارا کرنا پڑتا ہے اور پھر اس پر سود کی شرح بڑھنے پر عوام پر ٹیکسز کا نیا بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے سابق وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں جون 2018 تک تقریباً سات کروڑ لوگ غربت کی زندگی گزار رہے تھے اور اس سال جون تک یہ تعداد بڑھ کر آٹھ کروڑ ستر لاکھ تک جا پہنچی ہے۔

آبادی کے اس بڑے حصے کی مدد اور دیکھ بھال کے لیے حکومتی اقدامات ناکافی ہیں۔ ریاستی ادارے بنیادی سہولیات کی فراہمی میں ناکام رہے ہیں۔ لیکن جب حکومت وقت ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہے تو یہ کچھ ادارے اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے سامنے آتے ہیں۔ ہمیں توقع کروں گا کہ پنجاب گروپ آف کالجز کی طرح دوسرے اداروں سے بھی یہ توقع کرنی چاہئے کہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کی نفسیاتی اور زہنی تربیت کے لئے طبقاتی فرق کو مٹانے کے لئے اپنی خدمات سر انجام دیں ۔ اور ملک و قوم کی ترقی کے لئے استاد بحیثیت اتالیق بن کر اپنا کردار ادا کریں۔

Facebook Comments Box
انٹرنیشنل