تحریر: فیض عالم
کراچی پاکستان
اللہ تعالیٰ کو انسان کے پسندیدہ اعمال میں سب سے زیادہ پسند آنے والا ایک عمل شکر گزاری بھی ہے۔ شکر کرتے رہنے پر اللہ وہ نعمتیں اور رحمتیں بھی عطا فرما دیتا ہے، جو انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتیں، لیکن انسان چونکہ ٹھیرا جلد باز تو اکثر اپنی جلد بازی کی وجہ سے زرا سی تکلیف پر شکوہ، شکایت کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جیسے جیسے انسان مشینی اور مصروف زندگی کا عادی ہوتا جارہا ہے۔
اس میں خود غرضی، بناوٹ اور ہر کام میں جلدی نتیجہ حاصل کرنے کی چاہت بڑھتی جا رہی ہے اور اسی وجہ سے شکر گزاری کی عادت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ہم لوگوں کے عام مزاج کا مشاہدہ کریں تو یہ بات سو فیصد درست ثابت ہوگی کہ ٹھکر لگ کر گرنے پر بھی ہم ایسا واویلا برپا کرتے ہیں جیسے دنیا کی سب سے بڑی تکلیف ہمیں ہی ہے۔ جس کسی کے پاس بھی کچھ دیر بیٹھیں اور اس سے معمالات زندگی ڈسکس ہوں، تو الف سے لے کر یہ تک شکووں کے انبار لگے ہوں گے۔ کبھی اچھی جاب نہ ملنے کا شکوہ، کبھی پرانی گاڑی کا تو بھی کرائے کے گھر کا۔
شکر گزاری ہے کیا؟ اللہ کی رضا میں راضی با رضا ہو کر سر تسلیمِ خم کرنا، دل میں کسی بھی قسم کا پچھتاوا لائے بغیر الحمداللہ کہنا، الحمداللہ صرف زبانی کلامی کہنا نہیں بلکہ دل و دماغ کو ایک پلٹ فارم پر رکھ کر اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا شکر گزاری ہے۔ جو انسان اپنے رب کا شکر ادا نہیں کر سکتا وہ بندوں کا بھی شکر ادا نہیں کر سکتا۔
کیا کرتے ہیں ہم؟ کبھی اپنے سے نیچے والوں کو نہیں دیکھتے، یہ نہیں سوچتے کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے، کروڑوں افراد ایسے ہیں جن کے لیے یہ سب کچھ ایک خواب ہے۔ ہم تو بس اوپر دیکھتے ہیں کہ فلاں ایسی گاڑی میں جاتا ہے۔ ہمارے پاس یہ گاڑی کیوں نہیں یا اس کے پاس ایسی جاب ہے میرے پاس کیوں نہیں۔
آگے بڑھنے کی جدوجہد کرنا ایک بہترین عمل ہے، مگر حدیث پاک میں واضح طور پر دنیاوی عیش و آرام کے لیے ہمیشہ اپنے سے نیچے والوں کی جانب دیکھنے کا حکم دیا گیا تاکہ انسان کو اپنے پاس موجود نعمتوں کی قدر ہو۔اللہ کی ناشکری کا نتیجہ کیا نکلا؟ جلد بازی، حرص لالچ اور بے چینی نے ہمیں گھر لیا۔ دوسروں کی خوشیاں دیکھ کر احساس کمتری میں مبتلا ہونا یا حسد کرنا ایک عادت سی بن گئی۔ اپنے رشتوں کو بھی ہم نے نظرانداز کر دیا کہ کون ہمارے لیے کیا کرتا ہے۔ بیوی شوہر کا شکریہ نہیں ادا کرتی، تو بچے ماں کا، کہیں بہن بھائی کا شکریہ ادا کرنے سے قاصر ہے تو کہیں کوئی بیٹا باپ کا۔ ہر چیز کو ہر رشتے کو ہم نے فار گرانٹڈ لے لیا۔
دور حاضر میں انسان ناشکری کی بلندیوں پر ہے۔ کوئی اپنے حال سے توکل کی بنا پر خوش نہیں۔ اس لیے شکر گزاری کا ایلیمنٹ ہمارے مزاج سے بہت دور نکلتا جا رہا ہے۔ شکر گزاری میں ایک مقناطیسی طاقت ہے۔ آپ چاہے جس حال میں ہوں اگر اللہ کی رضا میں خود کو مطمئن محسوس کرتے ہیں اور دن میں کئی بار آپ کی زبان سے شکر کے الفاظ نکلتے ہیں تو یقین کر آپ خوش قسمت ترین لوگوں میں سے ہیں۔
یاد رکھیں شکر گزاری اللہ کے پسندیدہ اور کامیاب لوگوں کی نشانی ہے۔ ناکام لوگ ہمیشہ رونا روتے ہیں۔ کبھی حالات کا تو کبھی رشتوں کا اور کبھی اپنی قسمت کا۔ تو آئیں شکر گزاری کو اختیار کریں۔یہ ایک معجزہ ہے۔ آپ اسے اپنی زندگی میں شامل کریں، اللہ آپ کی نعمتوں میں اضافہ اور پریشانیوں میں کمی کرتا چلا جائے گا اور اگر پریشانی آئے گی بھی تو آپ کے اندر توکل کا سکون پیدا کر دے گا۔
شکریہ ادا کریں۔ اپنے ارد گرد موجود رشتوں کا، ان کے پیار و احساس کا اور پھر اپنے رب کا کہ جو کچھ اللہ نے دیا، بہترین دیا، یہ ایک فارمولا ہے۔ اسے اپلائی کریں، رزلٹس آپ کی سوچ سے زیادہ بہترین ہوں گے۔
وما علینا الاالبلاغ