ہومکالم و مضامینوہ ہم ہی تھے

وہ ہم ہی تھے

تحریر۔زبیر حسین

زمانۂ طالب علمی میں ایک نامعلوم استاد کے پہیلی نما سوال نے دماغ میں سوچ کے گھوڑوں کو کچھ یوں دوڑایا کہ جیسے علم و دانشوری سے لگاؤ کی بجائے اکتاہٹ سی محسوس ہونے لگی تھی، استادِ محترم براہ راست ہمیں نا کوئی مضمون پڑھاتے تھے اور نا ہی ان کا ہمارے شعبہ سے دور دور تک کوئی تعلق تھا، البتہ وہ ادارے کے سربراہ تھے تو ہمیں لگا کہ شاید رعب کا تاثر ہم پر مسلط کرنے آئے ہوں گے۔ یونیورسٹی میں پہلے ہی دن محترم استاد کا ہم سے دریافت کیا گیا سوال کچھ یوں تھا کہ تعلیم کے ان گنت فوائد ہیں مگر ایک ہی نقصان ہے جو ان تمام فوائدپر بالادستی رکھتا ہے، لوجی ان کا یہ کہنا تھا ہی کہ طلباء کے بھرے مجمے سے ٹھنڈی سانس کی آواز سے محسوس ہونے لگا کہ ہم نے شاید غلط ادارے کو چن لیا ہو۔ ابھی ہم یہ پہیلی بوجھنے کی کوشش میں ہی مبتلا تھے کہ ایک طالب علم نے ہچکچاہٹ میں کہہ ہی دیا کہ سر آپ کا مذاق اچھا تھا۔
ان صاحب کا یہ کہنا ہی تھا کہ استادِ محترم نے اٹھکیلیاں شروع کردیں کہ اچھا یہ بتائیں کہ دنیا بھر کی افواج میں سپاہی کیوں اگلی صفوں میں لڑتا ہے یا کسی ملک کی سرحد پر سپاہی کیوں پہرا دیتا ہےجبکہ اعلیٰ افسران اپنے آرام دہ کمروں سے فقط حکم نامے جاری کرتے ہیں۔ لوجی یہاں تو کوئی مشکل ہی نہیں سب نے ایک ہی آواز میں کہا جناب یہ تو تعلیم کا معاملہ ہے اگر سپاہی پڑھا لکھا ہوتا تو وہ اعلیٰ افسر کی جگہ بیٹھ کر احکامات جاری کرتا۔ اس پر استاد محترم ہلکی سے مسکراہٹ کے ساتھ یہ فرمانے لگے کہ آج اگر آپ سب کے سامنے ایک ایسے شخص کو پیش کیا جائے جو نعوذ باللہ گستاخِ رسول ﷺ ہو تو آپ کا ردِ عمل کیا ہوگا۔ جناب یہ تو ایسی بات تھی جس نے سب کو چند منٹوں کے لئے سکتے میں طاری کردیا تھا، کیونکہ یہ موضوع ایسا تھا کہ جس پر کوئی دوسری بات ہی ممکن نا تھی سوائے اس کے کہ ہم سب کا ایک ہی جواب ہوتا کہ سر تن سے جدا۔ ہماری خاموشی کو غنیمت جان کر استاد محترم نے ہمیں غازی علم الدین شہید کا پور قصہ سنایا ۔
پھر یوں ان کے سوال کا خلاصہ ہوا کہ تعلیم کے بے شمار فوائد ہیں مگر ایک ہی نقصان ہے وہ یہ کہ پڑھا لکھا انسان معاشرے میں بزدل مانا جاتا ہے، جبکہ پڑھا لکھا شخص کسی بھی کام کی انجام دہی سے قبل اس کے نتائج پر سزا اور جزا کی ناپ تول میں لگا رہتا ہے۔ یہاں استادِ محترم نے غازی علم الدین کی مثال یوں دی کہ وہ ابتدائی تعلیم تک کا شعور رکھتے تھے اور مذہب سے محبت کی انتہاء اس درجے پر تھی کہ انہوں نے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے کو واصل باجہنم کیا، دوسری طرف ان کا اشارہ ہم گریجویٹ طلبا کی جانب تھا کہ جو ماسٹرز ڈگری کے لئے یونیورسٹی میں موجود تھے۔ یہ حقیقتاً صحیح بات رہی کہ جس وقت ہم سے یہ سوال کیا گیا کہ ’ہمارا ردِعمل کیا ہوگا کہ جب کوئی گستاخی کا مرتکب شخص ہمارے سامنے لایا جائے گا‘ تب ہم میں سے بیشتر طلباء کے ذہنوں میں کچھ سوالات ہچکولیاں لینے لگے کہ اگر ہم نے اسے قتل کیا تو ہمیں سزا ہوسکتی ہے، ہمارا کئیریر تباہ ہوسکتا ہے، ہمارے ماں باپ کا کیا ہوگا، ہمارے بیوی بچے کیا کریں گے، یہ ایک ایسی کشمکش تھی جسے ایک اسلامی جمہوریہ میں شاید ایمان کی کمزوری یا پھر بزدلی قرار دینا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔
جناب کی پہلی مثال ایک سپاہی سے شروع ہوئی اور غازی علم الدین شہید پر ختم گویا اس کا مرکزی خیال کچھ یوں نکلتا ہے کہ علم و شعو سے انسان میں سوچنے سمجھنے کی شدت کو منفی قدروں میں شمار کیا جانا معاشرے میں روایت بن چکا ہے بالفاظ دیگرعلم سے دوری انسان کو اس قدر نڈر اور بہادری کے اعزازات سے نوازتی ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ معاشرے میں نظر انداز ہونے لگتا ہے، ایسی ہی چند مثالیں ہمیں اپنے اردگرد ملتی رہتی ہیں جہاں لاعلمی کسی کو پھنے خاں بناتی ہے تو دوسری جانب علم و ہنر کسی کے لئے وبالِ جان ثابت ہوتا ہے،شاید یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان بننے سے اب تک پڑھے لکھے طبقے نے نہ سیاست میں دلچسپی ظاہر کی اور نہ ہی معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت جٹا پائے انہوں نے فقط ایک ہی پالیسی پر نگاہیں مرکوز رکھیں اور وہ ہے ’سانوں کی‘۔
سانوں کی طبقہ کو حالیہ دنوں بے شمار القاب سے نوازا جارہا ہے جن میں کیپیڈ مجاہدین سرفہرست ہے، تازہ آنکڑوں کے مطابق ان مجاہدین کی اکثریت دیارِغیر میں مقیم ہے ،یہ مجاہدین ایک ستر پچھتر سالہ ملک کا موازنہ ان ممالک سے کرتے ہیں جن کی تاریخ پندرہ سو سے دو ہزار سال پرانی ہے، سونے پر سہاگہ تو یہ ہے کہ وطن بدر یہ طبقہ نہ ہی ان ممالک کی مقامی سیاست میں دلچسپی رکھتا ہے اور نہ ہی کبھی ان ممالک میں مقیم ہم وطنوں کے حقوق کے لئے کسی پلیٹ فارم پر ترجمانی کرتا ہے تو نتیجتاً ان ترقی یافتہ معاشروں میں بھی ہماری ترجمانی انہی کے ہاتھوں میں آجاتی ہے جو وطنِ عزیز میں عرصہ دراز سے تخت نیشن ہیں۔اور انہی تخت نشینوں کی وجہ سے آج تک ہم وطنِ عزیز کا مثبت چہرہ دنیا میں متعارف کروانے میں ناکام ہی رہے ہیں وجہ یہ ہے کہ کبھی ہم ان ممالک کی سڑکوں پر احتجاج کرکے یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے حکمران چور ہیں تو کبھی ہم دشمن ملک کا اصل چہروہ دنیا پر عیاں کرنے کے لئے ان کے سفارتخانوں کے سامنے چیخ و پکار کرتے ہیں۔ ارے محترم یہ تو وہی مثال ہے کہ چور کو بول چوری کر گھر والے کوکہہ کے گھر سنبھال، جب ہم دنیا بھر میں سڑکوں پر چلاتے پھریں گے کہ ہمارے ملک کے حکمران چور ہیں تو بیرونی سرمایہ کار کیوں کر ہمارے ملک میں کاروبار کرنے کے لئے آمادہ ہوگا، احتجاج کی بات کی جائے تو دنیا بھر میں پرامن اور معنی خیز احتجاج کچھ یوں بھی ہوئے ہیں کہ سال ۲۰۰۰ میں پیرو میں قومی پرچم کو سڑکوں پر دھوکر علامتی طور پر یہ ظاہر کیا گیا کہ ہم اپنے ملک سے کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
کل ملا کر بات فقط اتنی تھی کہ استادِمحترم نے ہمیں پہلے ہی دن ایک ایسا سبق دیا جو مستقبل میں ہمیں بہت ہی مددگار ثابت ہوا وہ یہ کہ معاشرے میں تعلیم یافتہ ہونا اس وقت جرم بن جاتا ہے جب آپ اپنے ذاتی مفادات تک محدود رہتے ہیں، آج مغربی دنیا میں جو ترقی ہمیں نظر آتی ہے وہ کوئی پنج سالہ منصوبہ کے تحت لائی گئی تبدیلی نہیں بلکہ ان قوموں کی ترقی میں کہیں مارکس تو کہیں پیٹرسن نے سو سال قبل کوئی نظریہ پیش کیا کہ آنے والی نسلوں کو ہم نے کیا دے کر جانا ہےاور شاید یہ ہی وجہ ہے کہ آج ان کی نسلیں ترقی یافتہ، آزاد اور خودمختار معاشرے میں سانس لے رہی ہیں، جبکہ ہم نے خود کو تین درجات میں تقسیم کرکے معاشرے کی بگاڑ کا سبب بننے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی، وہ تین درجات کچھ یوں ہیں’سیاست، نیوٹرل اور فرقہ واریت‘۔ ہم ان تین درجات کی مدبھیڑ سے کافی لطف اندوز ہوتے ہیں وہ کچھ اس طرح کے سیاست کے نام پر ہم قتل و غارت گری کا بازار گرم رکھتے ہیں ، دنیا بھر میں ہونے والے اسلاموفوبیا کے واقعات پر ہم ملک کا پہیہ جام کردیتے ہیں اور جب لے دے کر کچھ نا بچا تو ہم نے نیوٹرل کا واویلا مچا کر قوم کو مصروف کچھ یوں کردیا کہ ’وہ کون تھا؟‘۔
آئیں کچھ اس پر روشنی ڈالیں کے آخر وہ تھا کون؟ سٹیفن پی کوہن کے الفاظ میں ’’کچھ بری افواج اپنی قوم کی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں، کچھ معاشرے میں اپنے مقام کا تحفظ کرتی ہیں اور بعض کسی مقصد یا تصور کا دفاع کرتی ہیں۔ پاکستان کی بری فوج تینوں کام کرتی ہے۔ جس روز سے پاکستان وجود میں آیا ہے، یہ داخلی امن و امان کے قیام میں مدد دینے اور پاکستان کی قابل نفوذ اوراکثر غیر واضح سرحدوں کے تحفظ میں مصروف رہی ہے۔ اس عرصے میں اس نے پاکستان میں اپنی طاقت اور خاص مقام استعمال کر کے اپنے لیے کافی ہتھیاروں ،وسائل اور افرادی قوت کی فراہمی یقینی بنا لی ہے۔ مزید برآں اس نے خود کو ہمیشہ تصور پاکستان کا خاص اظہار تصور کیا ہے اور چند افسران اس نقطہ نظر کے بھی حامی ہیں کہ معاشرہ جہاں فوج کے مقررہ معیار سے نیچے گرے، اس کی اصلاح یا درستی میں بھی یہ فعال کردار ادا کرے۔ جناب عالی بجائے اس کے کہ ہم اس سوال میں الجھے رہیں کہ وہ کون تھا؟ ہمیں یہ سوچنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم کیا تھے اور کیا سے کیا ہوگئے۔
بات پھر وہیں آن پہنچی کہ سرحدوں پر پہرہ دینے والے اور حکم صادر کرنے والے کہ درمیاں کا جو فرق ہے اس کو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے ،سرحد کا محافظ آج بھی اسی عقیدت اور محبت کے ساتھ اپنی زمہ داریوں کو انجام دے رہا جیسے غازی علم الدین نے محبتِ رسول ﷺ میں شہادت کا جام نوش کرتے وقت کیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کون تھا کہ چکر میں ہم سرحد کے محافظوں کی دل آزاری کے مرتکب ہو جائیں ، خدا ارضِ پاک کو سلامت رکھے ورنہ ہم آنے والی نسلوں کو یہ تک نہیں کہہ پائیں گے کہ وہ ہم ہی تھے۔

Facebook Comments Box
انٹرنیشنل