ہومتازہ ترینمشرقِ وسطیٰ میں جنگ ۔۔۔ روس کے خلاف نئی چال

مشرقِ وسطیٰ میں جنگ ۔۔۔ روس کے خلاف نئی چال

مشرقِ وسطیٰ میں جنگ ۔۔۔ روس کے خلاف نئی چال

اشتیاق ہمدانی
ماسکو نامہ

ماسکو کے ایک ہسپتال کے سرجیکل وارڈ کے بیڈ پر 4 اکتوبر کو اپنے ساتھ کچھ کتابیں لیکر آیا تھا ۔ کہ 5 کو آپریشن ہوگا۔ اور 2/3 دن میں نارمل ہونے پر یہ کتب پڑھوں گا۔ مگر 8 اکتوبر 2005 کے زلزلے کے بعد ہمارے لئے اداس اور غمزادہ اہمیت تو رکھتا تھا ۔ لیکن غزہ کی ایک ایسی کاروائی جو کہیں کہیں 9/11 پارٹ ٹو بھی لگتی ہے اس نے مجھے واقعی بہت پریشان کیا ہے۔ کیونکہ کرونا اور یوکرین جنگ کی صورتحال سے دنیا بھر کے ممالک میں عام آدمی زندگی کی اذیت سے گذرنے پر مجبور ہے۔ پرانی کتابوں کے بجائے بہت کچھ تازہ ترین پڑھ رہا ہوں اور کل کی بعد کی صورتحال سے اس کالم میں کوشش کی کہ کچھ سوال اٹھا سکوں۔

اب پینٹاگون نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ، اسرائیل-فلسطینی کشیدگی کے پس منظر میں، جیرالڈ فورڈ کیرئیر اسٹرائیک گروپ کو مشرقی بحیرہ روم میں بھیج رہا ہے۔

قرآن

چنانچہ امریکی اس کھیل میں ملوث ہو گئے اور غزہ کی پٹی کو بمباری سے مٹا دیں گے۔ وہ اسرائیلیوں کے بغیر کہاں رہ سکیں گے؟ مغرب نے بھی کھل کر اسرائیل کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔
ممکن ہے نیٹو بھی اسی ہفتے اس جنگ میں کود پڑے۔ اگر نیٹو بھی اس جنگ میں آتا ہے تو ترکی جو نیٹو ممالک کا ممبر ہےاس کا کردار کیا ہوگا۔ کیونکہ ایک مسلم ملک ہونے کے ناطے ترکی یوکرین والا غیر جانبدار کردار فلسطین میں کرے گا تو مسلم امہ کی سرداری کا بھوت پارہ پارہ ہوجائے گا۔ ساتھ دے گا تو نیٹو کے ہاتھوں جنگ کا شکار ہوگا۔

لیکن۔۔

ایک سوال: کیا دوسرے مسلم ممالک اسرائیل کے ساتھ جنگ میں فلسطین کی مدد کے لیے شامل ہوں گے؟
سی این این کی رپورٹ کے مطابق، امریکہ مشرق وسطیٰ میں اضافی 20-25 F-35 اور F-15 لڑاکا طیارے بھیجے گا۔

ٹی وی چینل نے نوٹ کیا کہ جنگجوؤں کی منتقلی کا مقصد اسرائیل پر سرحدوں سے باہر دشمنی میں اضافے کو روکنا ہے۔ سی این این نے یہ واضح نہیں کیا کہ لڑاکا طیارے خطے میں کب پہنچیں گے۔

کیا مسلم ممالک گندم کے چںد دانے اور پانی کی چند بوتلیں بھجوانے کی جرت کرسکتے ہیں؟
یہ دوہرا معیار کیوں ؟

آج کے مسلم ممالک کی خاص کر عرب حکومتیں اپنی عیاشی اور بزدلی میں بھیگی بلی بنے بیٹھی ہیں۔

باقی مسلم ممالک کی نسبت ایران نے کھل کر جبکہ پاکستان نے سفارتی سطع پر بھرپور اواز اٹھائی ہے۔

پاکستان کی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے اس حوالے سے پاکستان کا موقف کا اعادہ کیا ہے کہ ١٩٦٧ سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر ایک قابل عمل، خودمختار اور ملحقہ ریاست فلسطین قائم کی جائے جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔ ترجمان وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ ہم عالمی برادری سے لڑائی کے فوری خاتمے، شہریوں کے تحفظ اور مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے، پاکستان

پاکستان فلسطین کی دوٹوک حمایت کرتا ہے:

پاکستان میں دفتر خارجہ کے ترجمان ، صدر مملکت اور نگران وزیراعظم ؛ تینوں نے جو بیانات دئیے ہیں ان کی روشنی میں موقف بنتا ہے کہ اسرائیل کو فلسطینیوں پہ ظلم و ستم بند کرنا چاہیے۔

اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق عمل ہونا چاہیے۔ دو آزاد ریاستی فارمولا ہونا چاہیے۔ اور فلسطین کا دارالحکومت القدس ہونا چاہیے۔اس ضمن میں سب سے بہترین بیان صدر مملکت کا تھا۔

ان بیانات کے بعد پاکستان کے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے متعلق افواہوں کا زور بھی ٹوٹ گیا ہے۔

کچھ لوگ یہ پروپیگنڈا کر رہے تھے کہ پاکستان فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم کے خلاف خاموش ہے ۔

تاہم سچائی تو یہ ہے کہ دیگر مسلم ممالک کے مقابل پاکستان کا موقف بہت جامع، ٹھوس اور دوٹوک ہے۔ حتیٰ کہ ترجمان دفترخارجہ کا پالیسی بیان بھی ترکی ، سعودیہ ، اور مصر سے بہت بہتر تھا۔

واشنگٹن پہلے کسی بھی تنازعہ کو “بھڑکاتا” ہے، پھر مہارت سے ہر فریق کے ساتھ “اپنا” الگ مکالمہ کرتے ہوئے ان کا انتظام کرتا ہے۔ اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تنازعہ روسی-یوکرائنی، آرمینیائی-آذربائیجانی یا فلسطینی-اسرائیلی ہے۔ اس سے پہلے کے تمام تنازعات کی طرح، بشمول پہلی اور دوسری عالمی جنگیں، سوویت یونین کا انہدام وغیرہ۔ ہنر مند امتزاج، اشتعال انگیزی اور ہیرا پھیری کی تکنیک۔ ایجنڈے کو سنبھالنا اور لوگوں کے جذبات کو ابھارنا اور جذبات پر کھیلنا۔

آپ پوچھ سکتے ہیں کہ وہ ایسا کیوں کر سکتے ہیں؟ جواب بہت آسان ہے: ڈالر۔ جو بھی مالیات (اور معلومات) کو کنٹرول کرتا ہے وہ دنیا کو کنٹرول کرتا ہے۔ سیاست معاشیات کا مرتکز اظہار ہے۔ اور ان لوگوں کی بات نہ سنیں جو کہتے ہیں کہ ڈالر مرتی ہوئی کرنسی ہے وغیرہ۔ یہ افواہیں خاص طور پر اس پروجیکٹ کے تخلیق کاروں نے شروع کی ہیں۔ بہت سی حکمتیں ہیں، جن کا مفہوم ایک ہی ہے: اگر آپ امیر ہیں تو سب کو بتائیں کہ آپ غریب ہیں یا کم از کم یہ کہ آپ امیر نہیں ہیں۔ سادہ الفاظ میں: پیسہ اور حقیقی طاقت خاموشی کو پسند کرتی ہے۔ اگر ڈالر کبھی غائب ہوتا ہے تو یہ صرف اپنے تخلیق کاروں کی مرضی سے یا پالیسی سازوں کی مرضی سے ہوگا۔ کچھ بھی ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا۔ تہذیبیں زوال پذیر ہوئیں، اشرافیہ نے جگہ لے لی، نئے فارمولے اور عالمی نظام کے احکامات نے جنم لیا۔ زندگی ٹھہری نہیں رہتی۔ دنیا ہمیشہ بدلی ہے۔

اب حماس (مشروط اتحادی حمایت کے ساتھ) اور اسرائیل کی طرف۔ اس “معاملے” میں، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا بھی ہر ایک کے ساتھ اپنا مکالمہ ہے۔ نیتن یاہو، امریکیوں کے مطابق، اپنے خیالات میں اپنی بہت سی غلطیوں (یا اس کے بجائے، کوتاہیوں) کا پہلے ہی احساس کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ، اس کی پوری زندگی امریکہ سے منسلک ہے: اسکول، ہارورڈ، امریکہ میں اسرائیلی سفارت خانے میں کام، اور اسی طرح. صدر پوتن کے ساتھ شراکت مشروط ہے۔

آذربائیجانی صدر نے وعدہ کیا ہے ناگورنو کاراباخ میں آرمینیائی شہری محفوظ ہیں، پوتن

اس طرح حماس اسرائیل آپریشن کا قلیل مدتی ہدف حاصل کر لیا گیا ہے۔ یا کچھ کنونشنز درست کر دیے گئے ہیں۔
میں نے کل خبریں اور ٹیلی گرام چینلز پڑھے۔ بہت سے لوگوں نے اس طرح کی عجیب منطق لکھی کہ
، وہ کہتے ہیں کہ یہ صدرپوتن تھے جنہوں نے حماس کے ذریعے اپنی سالگرہ کے موقع پر اسرائیل پر حملہ کیا۔
روس کے لئے اسرائیل فلسطین ایک علیحدہ درد سر ہی اس لئے ہے کہ روس کی پالیسی ، ڈریکشن میں وہ فلسطین کی حمایت کرتا ہے۔ لیکن یہودی روسیوں کی ایک بڑی تعداد اسرائیل میں مقیم ہے جن کے پاس روس کے پاسپورٹ ہیں یا دونوں ممالک کی نیشنلٹی ہے۔ اس لئے روس کھبی بھی مشرق وسطیٰ میں تصادم کو نہ صرف ہوا نہیں دے گا
بلکہ اس کسی کاروائی کی کھبی حمایت نہیں کرے گا۔ نہ صدر پوتن اپنی زندگی میں ایسا کبھی نہیں کریں گے۔ ان کے لیے یہ سیاسی خودکشی ہوگی۔ اور نہ صرف سیاسی۔
جب کہ روس کے سابق صدر دیمتری میدویدیف نے کہا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تازہ ترین پرتشدد صورت حال کے لیے امریکی خارجہ پالیسی ذمہ دار ہے۔ میدویدیف جو اس وقت روس کی سلامتی کونسل کے نائب چیئرمین ہیں، نے کہا کہ واشنگٹن کو اپنی توانائی مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کو یقینی بنانے کے لیے لگانی چاہیے تھی لیکن اس کے بجائے یوکرین پر توجہ مرکوز کرنے کا انتخاب کیا ہے۔ غزہ سے اسرائیل اور حماس کے گروپ کے درمیان ہفتے کے روز ہونے والی کشیدگی پر تبصرہ کرتے ہوئے میدویدیف نے اپنے ٹیلی گرام چینل پر لکھا کہ اس جنگ کا ہونا ممکن تھا اور اس کشیدہ صورت حال سے بچا جا سکتا تھا مگر امریکہ کی جانب سے غفلت برتی گئی.

سابق روسی صدر نے اسرائیل اور حماس کی لڑائی کا ذمہ دار امریکا کو ٹھہرادیا

میدویدیف نے مزید کہا کہ اسرائیل-فلسطین تنازعہ کئی دہائیوں سے جاری ہے، جس میں امریکہ ایک “اہم کھلاڑی” ہے۔ میدویدیف کے مطابق اس کے بجائے یہ بیوقوف ہمارے خطے میں اشتعال انگیزیوں میں شامل ہوگئے اور پوری طرح سے نو نازیوں کی مدد کر رہے ہیں اور دو قریبی ہمسایوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر رہے ہیں۔

اور یاد رکھیں: سیاست ایک کھیل ہے۔ گندا کھیل۔ اور بعض سیاست دان دہشت گردی کو بطور آلہ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اگر آپ اس پالیسی میں براہ راست شریک نہیں ہیں، تو آپ ایک آزاد شخص ہیں اور آپ کے پاس انتخاب ہے۔ اور یہ آزاد انتخاب ہونا، ظالموں کے حق میں انتخاب کرنا یا قرآن جلانے اور توہین رسالت کے جرم میں شریک مغرب امریکہ اور اسرائیل ہمیشہ ساتھ ساتھ رہے ۔ اور جرائم کسی بھی لفظ کے ہر معنی میں قابل سزا ہے۔

Facebook Comments Box
انٹرنیشنل

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں