ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے ملاقات کے کچھ گھنٹوں بعد کہا ہے کہ وہ اب بھی ان کو ’آمر‘ سمجھتے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق رواں برس جون میں بھی صدر جو بائیڈن نے چینی صدر شی جن پنگ کا موازنہ ’آمر‘ سے کیا تھا جس پر بیجنگ نے برہمی کا اظہار کیا تھا۔
بدھ کو نیوز کانفرس کے اختتام پر ایک صحافی نے امریکی صدر جو بائیڈن سے سوال کیا کہ آیا وہ اب بھی اپنے چینی ہم منصب کے لیے وہ اصطلاح استعمال کریں گے؟ جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’دیکھیں میرا مطلب ہے کہ وہ اس لحاظ سے ایک آمر ہیں جو ایسے ملک کو چلا رہے ہیں جو ایک کمیونسٹ ملک ہے، اور اس ملک کی بنیاد ایک ایسی نظام حکومت پر مبنی ہے جو ہم سے بالکل مختلف ہے۔‘
2017 کے بعد چینی صدر امریکہ کے دورے پر ہیں۔ دونوں صدور کے درمیان سانس فرانسسکو میں تقریباً چار گھنٹے کی ملاقات ہوئی۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے چینی ہم منصب دونوں ممالک کے درمیان بحران کے وقت ایک دوسرے سے براہ راست بات چیت کرنے پر متفق ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک سفارتی رابطے برقرار رکھنے پر بھی متفق ہوئے ہیں۔
’چینی صدر نے اور میں نے اتفاق کیا ہے کہ ہم فون اٹھا سکتے ہیں اور براہ راست فون کریں گے اور اس کو فوراً سنا جائے گا۔‘
دونوں ممالک نے فوجی رابطے بھی بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے کہ جو چین نے اُس وقت کی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی کے دورہ تائیوان کے بعد اگست 2022 میں منقطع کر دیے تھے۔
دوسری جانب چین کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صدر شی جن پنگ نے امریکی صدر کو تائیوان کو مسلح کرنے سے متعلق خبردار کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک اعلٰی سطحی عسکری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر بھی رضامند ہو گئے ہیں۔
چین کی وزارت خارجہ کے مطابق ’امریکہ کو چاہیے کہ تائیوان کو مسلح کرنا بند کر دے اور چین کی پُرامن اتحاد کی حمایت کرنی چاہیے۔‘
صدر شی جن پنگ نے واشنگٹن کو خبردار کیا کہ بیجنگ اپنی کپمنیوں کے خلاف امریکی پابندیوں اور دیگر اقدامات سے بھی مطمئن نہیں۔