شاہ نواز سیال
حالیہ امریکن انتخابات پر دنیا بھر کی نظریں ٹکی ہوئیں تھی دنیا بھر کے کم علم اور خوشامدی ٹولے ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے دعوے کر رہے تھے خیر امریکن انتخابات ہوئے تو ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے دوسری بار وہ وائٹ ہاؤس کے مکین بنے خود کو امریکن صدر کا دوست کہنے والے کھسیانی بلی کی طرح وارد ہوئے بن بلائے مہانوں میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سر فہرست تھے شاید نریندر مودی کے ذہن میں تھا کہ پیارے دوست دوسری مرتبہ امریکن صدر منتخب ہوئے ہیں وہیں جاکر مبارکباد دینی ضروری ہے نریندر مودی دوڑے دوڑے جب واشنگٹن پہونچے تو سفر کے دوران نریندر مودی کو اپنے دوست کی جانب سے والہانہ استقبال اور دوستی کے رشتوں کے مزید استحکام کی اُمید تھی-
نریندر مودی کو یقین بھی تھا کہ واشنگٹن میں اُن کا والہانہ استقبال ہوگا ڈونلڈ ٹرمپ اور مودی کی اٹوٹ دوستی کا ساری دنیا نظارہ کرے گی مودی کو کیا پتہ تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ اب وہ نہیں رہے جو پہلی میعاد میں صدارتی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد تھےامریکہ کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی سب کچھ بدلا بدلا دکھائی دے دیا نریندر مودی کو امریکہ میں اجنبیت کا احساس ہونے لگا ٹرمپ نے بن بلائے مہمان کی طرح نریندر مودی سے رسمی انداز میں سفارتی اُصولوں کے مطابق ملاقات کی۔ ملاقات میں گرمجوشی کی بجائے سرد مہری کے رویہ نے مودی اور اُن کی ٹیم کو حیرت میں ڈال دیا۔ ٹرمپ کے جائزہ لینے کے بعد کسی تاخیر کے بغیر ملاقات کرتے ہوئے امریکہ سے قربت اختیار کرنے کے منصوبہ پر جیسے پانی پھر گیا۔ دونوں قائدین نے مصافحہ اور معانقہ بھی کیا، گلے تو مل رہے تھے لیکن دلوں میں فاصلہ برقرار تھا نریندر مودی جس اُمید کے ساتھ امریکہ گئے تھے وہاں اُنھیں اِس لئے بھی مایوسی ہوئی کیوں کہ ڈونالڈ ٹرمپ بدل چکے تھے بھارت کی اصلیت اور مودی کا مکارانہ اور منافقانہ رویہ جان کر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے نظریات تبدیل کر چکے تھے جس کے اثرات سفارتی سطح پر پالیسی پر صاف دکھائی دے رہے ہیں مودی کی خوشامد بھری ملاقات کے باوجود ٹرمپ کا دل نہیں بدلا اور اُنھوں نے بھارت کے حق میں کسی قسم کے فیصلہ کا اعلان تک نہیں کیا۔
ایسے محسوس ہورہا تھا جیسے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی دوسری میعاد میں دوستوں کی نئی فہرست تیار کرلی ہے اب شاید بھارت سے امریکہ کے مفادات ختم ہوگئے ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کے لیے اپنی پالیسی بدل دی ہے مودی کے دورے سے لیکر آج تک امریکہ کے مخالف بھارتیوں کے ذہن میں یہ سوال گونج رہا ہے کہ ٹرمپ آخر بدل کیوں گئے؟ کیا اُنھیں اب نریندر مودی پر بھروسہ نہیں رہا اگر اِس کا جواب ہاں میں ہے تو پھر اعتماد شکنی کی وجوہات کیا ہیں ؟کہیں ایسا تو نہیں کہ نریندر مودی نے پہلی میعاد میں اپنی جملہ بازی سے متاثر کیا اور بعد میں دوستی کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے جس طرح عوام سے کئے گئے انتخابی وعدے کھوکھلے نکلے ہیں –
امریکہ سے واپسی کے بعد سے شاید مودی بھی یہ طے نہیں کرپارہے کہ آخر ٹرمپ کے تیور اچانک کیوں بدل گئے نریندر مودی اپنے دوست کی بے وفائی پر حیرت میں ہیں امریکہ روانگی سے قبل ٹرمپ انتظامیہ نے غیر قانونی طور پر مقیم بھارتیوں کی گھر واپسی کا عمل شروع کردیا تھا اُمید کی جارہی تھی کہ مودی سے ملاقات کے بعد بھارتیوں کی واپسی کا سلسلہ رُک جائے گا لیکن ایسا کچھ نہ ہوسکا امریکہ میں قدم رکھتے ہی مودی کو استقبال کے موقع پر اندازہ ضرور ہوا ہوگا کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے مودی سے قبل جاپان اور اسرائیل کے وزرائے اعظم اور شاہِ اردن نے ٹرمپ سے ملاقات کی تھی اور تینوں کا استقبال ٹرمپ نے قیام گاہ کے باہر گاڑی کے پاس پہونچ کر کیا جبکہ نریندر مودی کے استقبال کے لئے ٹرمپ باہر نہیں آئے اور ایک خاتون عہدیدار نے اُن کا استقبال کیا۔
بھارت جو خود کو دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک کہتے ہوئے تھکتا نہیں ہے مودی بھارت کو ’’وشوا گرو‘‘ بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن امریکی صدر نے حقیقت کا سامنا کرادیا امریکن صدر نے جاپان، اسرائیل اور اُردن کے مقابلے میں بھارت کو اہمیت نہیں دی-
نریندر مودی امریکہ میں ہی تھے کہ بھارت کے دوسرے قافلے کی گھر واپسی کی تیاریاں جاری تھیں۔
مودی کی واپسی کے بعد مزید 2 امریکی طیارے بھارتیوں کو لیکر پنجاب پہونچے بھارتیوں کے ساتھ ایسے سلوک سے بچنے کے لئے امریکی طیاروں کو پنجاب میں لینڈنگ کی اجازت دی گئی تاکہ وہاں کی عام آدمی حکومت کی بدنامی ہوجب واپس ہونے والے بھارتی نوجوان مختلف ریاستوں سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر دارالحکومت دہلی میں لینڈنگ کی اجازت دی جاتی تاکہ وہاں سے وہ اپنے اپنے مقامات روانہ ہوسکتے- نریندر مودی دراصل بھارتیوں کی واپسی کا وبال اپنے سر لینے کے لئے تیار نہیں تھےمودی حکومت اور بی جے پی کو بدنامی اور احساس ندامت سے بچانے کے لئے ہندوستانیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کو میڈیا میں بلیک آؤٹ کیا گیاواپسی کی خبروں اور ہتھکڑی اور بیڑیوں میں جکڑنے کے معاملہ کو بھی انڈین میڈیا نے پیش نہیں کیااگر مرکز میں کانگریس حکومت ہوتی تو مودی میڈیا آسمان سر پر اُٹھالیتا لیکن نریندر مودی حکومت کی پردہ پوشی کی جارہی ہے۔ امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم دیگر ممالک کے باشندوں کی واپسی کی کوئی مہم دکھائی نہیں دے رہی ہے اور صرف ہندوستانیوں ملک بدر کیا جارہا ہے مودی کی وطن واپسی کے بعد ٹرمپ کا ہندوستان کے بارے میں رویہ اور بھی سخت ہوگیاالون مسک کی کمپنی ٹیسلا نے ہندوستان میں تعیناتیوں کی تجویز کی ٹرمپ نے مخالفت کی اور الیکشن میں رائے دہی میں اضافہ کے لئے دی جانے والی 21 ملین ڈالر کی امداد کو روک دیا ہندوستانیوں کو امریکی کمپنیوں میں روزگار کی مخالفت کرتے ہوئے ٹرمپ نے اچھے ریمارکس نہیں دیے اُن کا کہنا تھا کہ ہندوستانیوں کو امریکی اداروں کے بجائے اپنے بھارت میں کی صفائی کی ملازمت ملنی چاہئےامریکی صدر نے ماحول آلودہ کرنے اور ماحولیاتی آلودگی کا سبب بھارتیوں کو قرار دیا۔
کسی بھی ملک میں موجود غیر قانونی شہریوں کی واپسی میں کوئی قباحت نہیں لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے ہندوستانیوں کے سخت کارروائیاں کرتے ہوئے بیڑی اور ہتھکڑی کا استعمال کرتے ہوئے جو توہین کی ہے اُس پر نریندر مودی نے ایک لفظ تک نہیں کہا بھارتیوں کا خیال ہے کہ آج بھی امریکہ کی بیشتر آئی ٹی کمپنیاں ہندوستانی پروفیشنلز سے چل رہی ہیں۔ امریکی کمپنیوں کو کم اُجرت میں ماہر آئی ٹی پروفیشنلز ہندوستان سے حاصل ہورہے ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ سے واپسی کے بعد مودی نے دورہ امریکہ پر پارلیمنٹ میں کوئی بیان نہیں دیا اور نہ ہی عوام کو تفصیلات سے آگاہ کیا ہے مودی حکومت کے سناٹے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ نے کوئی خاص خاطر داری نہیں کی امریکہ سے واپسی کے فوری بعد امیر قطر ہندوستان کے دورہ پر پہونچے۔ پروٹوکول نظرانداز کرتے ہوئے نریندر مودی نے ایرپورٹ پہونچ کر امیر قطر کا استقبال کیا کوشش کی کہ امریکہ میں جو ذلت رسوائی ہوئے کسی طرح لوگوں کی آس توجہ ہٹائی جس وقت نریندر مودی امیر قطر سے والہانہ گلے مل رہے تھے اُسی وقت ریاست اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ اُردو زبان اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہے تھے اترپردیش میں اُردو زبان کے استعمال کے مطالبہ پر یوگی آدتیہ ناتھ نے کہاکہ اُردو کے ذریعہ وہ ’’کٹ مُلّا‘‘ تیار کرنا نہیں چاہتے نریندر مودی ایک طرف عرب دنیا اور مسلم ممالک سے دوستی کا ڈھونگ رچاتے دکھائی دیتے ہیں تو دوسری طرف اُن کے شاگردِ خاص یوگی آدتیہ ناتھ نے اُردو زبان کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی یہی وہ منافقانہ کردار ہے جس کی وجہ سے بھارت سفارتی سطح پر تنہائی کا شکار ہے
ہندوستان میں مسلمانوں کی شناخت اور سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان صرف اُردو ہے۔ ہندی صرف شمالی ہند تک محدود ہے جبکہ آسام، منی پور، مغربی بنگال، ٹاملناڈو اور کیرالا جیسی ریاستوں میں اُردو کے ادارے اور اخبارات مل جاتے ہیں نریندر مودی اور بی جے پی کا دوہرا معیار نہیں تو کیا ہے عرب ممالک سے دوستی کرتے ہوئے وہاں مندروں کی تعمیر کی راہ ہموار کرتے ہیں جبکہ خود بھارت میں مساجد کے نیچے مندروں کی تلاش کا کام جاری ہے۔ نریندر مودی کو عرب ممالک کے سربراہوں کو گلے لگانے میں شاید اِس لئے اعتراض نہیں ہے کیونکہ دنیا کو سیکولر اور لبرل بھارت کا چہرہ دکھانا مقصد ہے حالت یہ ہے کہ آئی سی سی کے اہم ایونٹ چیپمین ٹرافی میں بھارتی کرکٹ ٹیم کو پاکستان نہ بھیج کر اپنے دوہرے معیار کا ثبوت دیا جبکہ امریکہ میں چابلوس اور خودنمائی کی خاطر بن بلائے مہمان بن کر چلے گئے دنیا اب ان مکاریوں اور قلابازیوں سے پوری آگاہ ہوچکی ہے-
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب پہلی بار منتخب ہوئے تھے تو سب سے پہلے ان کاغیر ملکی دوری سعودی عرب تھا اگر ہم ان کے پہلے دور کا جائزہ لیں تو ان فوکس مشرق وسطی تھا اب بھی ان کا پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب ہی ہوگا کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بخوبی آگاہ ہیں کہ سعودی عرب مشرق وسطیٰ کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا ،روس اور چین کے ساتھ تعلقات کی بہتری میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے –