شا ہ نواز سیال
انسان خود کے ساتھ ساتھ معاشرے کی تربیت کرنے میں ہمیشہ منافقانہ رویوں کو فروغ دیتا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان خود اپنے ہاتھ سے اپنی تباہی کے جدید ذرائع تلاش کر رہا ہے دنیا کے نام نہاد عالمی نمبردار ایک طرف انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں دوسری طرف خود انسانی تباہی کے سازو سامان بیچتے ہیں دوسروں کو دفاعی سازو سامان بنانے پر پابندیاں عائد کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں جبکہ خود کھلے عام دفاعی سازو سامان بناتے ہیں یہی منافقانہ کردار عالمی امن کے کردار میں رکاوٹ ہے گزشتہ پانچ برسوں میں ہر جگہ مزاحمت کار طاقتور طاقتوں کے ہاتھوں استعمال ہوئے ہیں خیر اب ہم
موجودہ دور میں جدید ٹیکنالوجی کے نقصانات کا جائزہ لیتے ہیں-
ایٹم بم کے خطرناک اثرات سے دنیا کو بچانے کیلئے ابھی تک کوئی موئثر قدم نہیں اٹھایا گیا حالانکہ یہ دنیا اہل علم اور دانشمند لوگوں سے بھری پڑی ہے جو یہ جانتے ہیں کہ ان حالات کا دنیا پر خطرناک اثر پڑے گا-
اگر سنجیدگی سے کوئی قدم اٹھایا جائے تو ممکن ہے کہ ان کاوشوں سے حالات میں کچھ بہتری آئے آج تک تو یہی کہا جاتا رہا ہے کہ یہ دنیا ایک ’’گلوبل ولیج‘‘ ہے اور یہ کہ ہم سب ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں یہ عہد بھی کیا گیا کہ ہم قدم سے قدم ملا کر چلیں گے اور سب کی کوششوں سے ایک نہ ایک دن امن قائم کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے –
اگرچہ لفظ امن چھوٹا سا لفظ ہے یہی لفظ اپنے آپ میں کتنی طاقت رکھتا ہےہم سب اچھی طرح جانتے ہیں اپنی گہرائیوں میں وہ دنیا کیلئے ، پیار محبت ، اخلاص، یگانگت اور ایک سنہرا دور جس کیلئے دنیا مدتوں سے منتظر رہی ہے اگر کبھی ایسا ہوجائے تو یہ دنیا ہی نہیں بلکہ پوری کائنات جنت بن جائے گی ۔
غرض دوسری عالمی جنگ کے بعد بہت سارے وعدے اور معاہدے کئے گئے جن میں ’’جیو اور جینے دو‘‘ سب سے طاقتور نعرہ تھا لگتا ہے امن کا نعرہ صرف فائلوں کی زینت بن کر رہ گیا ہے جس کی امید میں آج تک ہر فرد انتظار کی گھڑیاں گزار رہا ہے چنانچہ آج کل جن ہنگامی حالات سے دنیا گزر رہی ہے اس سے بہت سارے مسائل کھڑے ہوگئے ہیں کیونکہ جب بھی کسی ملک کو جنگی حالات کا سامنا ہوتا ہے تو اس کے اثرات دوسرے ممالک پر بھی پڑتے ہیں جیسا کہ گزشتہ ادوار میں ہوچکا ہے –
قارئین آج ہم آپ کے سامنے دنیا کے دو ایسے ترقی یافتہ ممالک کا ذکر کریں گے جو سنگین جنگیں نتائج بھگتنے کے بعد نئے سرے سے ایسے تعمیرو تخلیقی مراحل میں داخل ہوئے کہ پوری دنیا کو اپنا محتاج کردیا –
پچھلی صدی عیسوی میں یورپ میں جو دو بڑی جنگیں لڑی گئیں اس کے اثرات سے پوری دنیا متاثر ہوئی اس جنگ میں جرمنی کی جو تباہی ہوئی وہ کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے جنگ کے بعد جرمنی کن صبر آزما وقتوں سے گزرا؟ ملک میں پھیلے اندھیروں سے کیسے باہر آیا؟ ترقی پذیر ممالک کو جرمن قوم سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے کہ ٹوٹے بکھرے جرمنی کی تعمیر نو سیاستدان اور ملک میں رہنے والے ہر فرد نے مل کر اور یوں ملک کو نشاط ثانیہ ملی یہ ان کی حب الوطنی کا جوش تو تھا ہی لیکن کھویا ہوا عروج واپس لانے کی جستجو بھی تھی کہ آج وہ عالمی سطح پر پُر وقار طریقہ سے کھڑا نظر آرہا ہے-
تاہم غور کرنے والی بات یہ ہے کہ جنگ کے اختتام کے 78 سال بعد بھی کچھ نہ کچھ جنگ کے اثرات ابھی باقی ہیں اس وقت جرمنی کو افرادی قوت کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے اس کی ظاہری وجہ وہی جنگ ہے جو گزشتہ صدی میں چھ برس تک جاری رہی اس جنگ میں نوجوانوں کی کثیر تعداد کام آگئی تھی اور جو بچ گئے انہوں نے ملک کی تعمیر نو انتہائی محنت اور جانفشانی سے کی غیر ممالک سے مہمان کا رکن بھی معاہدہ پر بلائے گئے جنہوں نے سخت محنت اور ایمانداری سے کام کرکے ملک کو آگے بڑھنے میں بہت مدد دی لیکن اب مشکل یہ آن پڑی ہے کہ وہ تمام افراد ملازمتوں سے سبکدوش ہوچکے ہیں یہی وجہ ہے جو افرادی قوت کی کمی کا باعث بنی ہوئی ہے اب یہاں یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ جنگ کے اثرات کسی نہ کسی طریقے سے برسوں ملک پر چھائے رہتے ہیں اور یہی سچائی ہے غرض اس ضمن میں جرمن حکومت کی طرف سے طئے کیا گیا ہے کہ بیرون یورپ سے معاہدہ پر کارکن بلائے جائیں جس میں سب سے زیادہ آئی ٹی اور میڈیکل جیسے شعبوں میں ہنرمند افراد کی بہت زیادہ ضرورت ہےآنے والوں کو حکومت کی طرف سے بہت ساری سہولتیں دیئے جانے کا اعلان کیا گیا ہے خاص طور پر ایسے افراد جو تعلیم یا ہنر کو مزید بہتر بنانے کی غرض سے آنا چاہتے ہیں انہیں لمبے عرصہ تک قیام کی اجازت اور پھر ہفتہ میں 20 گھنٹے کی اجازت دی جائے گی یہ اجازت کام کرنے کیلئے دی جائے گی تاکہ پڑھنے والوں کو مالی طور پر سہولت ملے غرض یہ ساری تفصیلات تحریر کرنے کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ جنگوں سے ہونے والی تباہیوں کا کچھ اندازہ ہو۔ جنگیں لڑی تو جاسکتی ہیں لیکن جنگی اثرات نپٹنے میں عمریں نکل جاتی ہیں کچھ ایسے ہی حالات سے جاپان بھی گزر چکا ہے ۔
اگرچہ کہ اس نےدوسری عالمی جنگ میں آخر تک بہادری سے مقابلہ کیا اس وقت جاپانی قوم ایک عسکری قوم مانی جاتی تھی اور معاشی اور اقتصادی طور پر وہ بڑی حد تک مستحکم تھی تاہم آخر میں اسے تسلیم کرنا پڑا کہ وہ شکست قبول کرتا ہے کیونکہ اس کے سوا اس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا اس کے حوصلے پست کرنے کے لئے اس کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر بھاری بم گرائے گئے تھے جس میں ہزآروں کی تعداد میں شہری ہلاک ہوگئے یہی وجہ تھی کہ جاپانی حکومت نے اپنی عوام کی جانیں بچانے کیلئے شکست مان لی اپنے ملک اور قوم کو تحفظ مہیا کرنے کیلئے کبھی کبھی شکست خوردہ ملک کا لقب بھی اختیار کرنا پڑتا ہے اور وہ انہوں نے کیا اب سوال یہ تھا کہ ملک کی تعمیر نو کیسے کی جائے کیونکہ بموں کے قہر سے ملک تو مٹی کا ڈھیر بن چکا تھا انہوں نے سخت محنت کرنے کا فیصلہ کیا ویسے بھی جاپانی قوم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ محنت مشقت کرنے پیچھے نہیں ہٹتے ۔ فطری طور پر ان میں فنی صلاحیتیں بھی موجود ہیں اور پھر ذہن و فطین بھی ہیں چنانچہ انہوں نے ٹیکنالوجی کے شعبہ پر پوری توجہ دی اور اپنی صلاحیتوں کو ٹیکنالوجی کے میدان میں آزمایا اور اتنی تیزی سے آگے بڑ ھے کہ بڑے بڑے فنی مہارت رکھنے والوں کو زیر کردیا اپنی فنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر وہ آگے ہی بڑھتے رہے ان کی مصنوعات سے آج بھی مغڑبی منڈیاں بھری پڑی ہیں ۔ صارفین چاہتے ہیں کہ جاپانی مصنوعات ہی خریدیں کیونکہ وہ معیاری بھی ہوتی ہیں اور واجبی قیمتوں میں دستیاب ہوتے ہیں ۔ غرض وہ ملک جو مکمل طور پر تباہ ہوچکا تھا ، آج دنیا کی بڑی معیشت کہلاتا ہے اور یہ بھی کہ ترقی یافتہ ملکوں کی صفوں میں شامل ہے گویا اس نے یہ ثابت کر دکھایا کہ آج کے دور میں دنیا کو ہتھیاروں کے زور پر نہیں بلکہ ان کی منڈیوں میں اپنی بہتر مصنوعات داخل کر کے فتح کیا جاسکتا ہے –
جس قوم میں ذ رہ بھر بھی علمی فراست ہو وہ یقیناً ایٹمی طاقت سے دور رہنا چاہے گی اگرچہ کہ اس سوختہ ملک کو پر عزم محنتی جاپانی قوم نے جدید ترین صنعتی ملک میں تبدیل کردیا لیکن آج 78 سال بعد بھی اس ہولناک قیامت کی یاد ان کے دلوں میں تازہ ہے ہر سال 6 اگست کو جاپانی باشندے ’’ہیروشیما‘‘ کے امن پارک میں جمع ہوکر ان انسانوں کیلئے جو اچانک ہی موت کے منہ میں چلے گئے دعائیں کرنے اور آئندہ اس ایٹمی ہتھیاروں سے دور رہنے کا عہد کر تے ہیں بحر کیف یہ ان دونوں ملکوں جرمنی اور جاپان کی مختصر سی روداد ہے جس پر اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو دنیا کے لیے بہت بڑا سبق موجود ہے اگر اب بھی بڑی عالمی طاقتیں سوچ و بچار نہیں کرتیں اور عملی طور پر اقدامات نہیں اٹھاتیں تو آنے والے دنوں میں بھیانک نتائج سامنے آئیں گے –