ہومتازہ ترین''پاکستان میں سیاسی اور جمہوریت کے تناظر میں روس کے ساتھ تعاون...

”پاکستان میں سیاسی اور جمہوریت کے تناظر میں روس کے ساتھ تعاون کے امکانات ” – ماسکو میں بین الاقوامی کانفرنس

ماسکو (اشتیاق ہمدانی) روس کے دارالحکومت ماسکو میں انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز، روسی اکادمی برائے سائنس اور گارچاکوف فنڈ کے زیر اہتمام ”پاکستان میں سیاسی اور جمہوریت کے تناظر میں روس کے ساتھ تعاون کے امکانات ”کے عنوان پر بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں دونوں ممالک کے مابین بڑھتی شراکت داری، تجارت، دفاع، ثقافتی اور علاقائی سطح پر تعلقات کا ازسر نو جائزہ لیا گیا.اس کانفرنس میں ماسکو اور اسلام آباد میں پاکستان اور روس کے سفیروں،سفارتخانوں کے اہلکاروں،سیاستدان، روس اور پاکستان کے کاروباری حلقوں کے علاوہ منتظمین، محققین، اساتذہ اور نوجوان محققین نے آن لائن اور ذاتی حیثیت میں شرکت کی۔ کانفرنس کے خیر مقدمی کلمات مرکز برائے مطالعہ اور مشرق وسطی کے سربراہ روسی اکیڈمی آف سائنسز کے انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز، پروفیسر وی یا بیلوکرینیٹسکی اور روسی اکیڈمی آف سائنسز کے انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز کے ڈائریکٹر اے کے علیکبیروف نے کیا۔

افتتاحی تقاریر ماسکو میں پاکستان کے سفیر محمد خالد جمالی (ذاتی طور پر) اور روس کے پاکستان میں سفیر البرٹ پاولووچ خوریف نے (آن لائن) کے ساتھ ساتھ ایسوسی ایشن آف رشین ڈپلومیٹس I.V کے چیئرمین نے کی، جنہوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر پاکستان میں روس کے سابق سفیر ڈنیلہ گانچ، پاکستان سے روس میں آئے ہوئے پاکستانی صحافی، محقق اور دانشوار الماس حیدر نقوی، معروف تجربہ کار پاکستانی سفارت کار، ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کی چیئرمین معصومہ حسن اور روس میں پاکستان کے سابق سفیر اور سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز سندھ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر قاضی محمد خلیل اللہ نے بھی۔ اس فورم کے شرکاء سے ایک آن لائن فارمیٹ میں خطاب کیا۔جنہوں نے علاقائی اور عالمی تبدیلی کی جدید حقیقتوں میں پاکستان روس تعلقات کی مختلف جہات پر روشنی ڈالی۔

روس میں متعین پاکستان کے سفیر محمد خالد جمالی نے کانفرنس سے خظاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 8فروری کو ہونیوالے انتخابات کے بعد روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے دورہ پاکستان کی توقع کررہے ہیں۔ روس کے ساتھ تعلقات کو مزید فروغ دینا پاکستان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ روس کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کیلئے قدیم سلک روٹ بحال کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔پاکستان اور روس کے درمیان بہت اچھا تعاون موجود ہے، تاریخ میں پہلی مرتبہ دوطرفہ تجارت کا حجم تقریباً 1 ملین ڈالر تک پہنچ گیا ہے آنیوالے سالوں میں مزید بہتری آئے گی۔ اچھے تعاون کے رشتے کے لیے ماضی میں معاشی تعلقات اور کاوشوں کا فقدان تھا- جو میرے خیال میں ہمارے مستقبل میں ختم ہونے والا ہے ارزاں نرخوں میں تیل اور گیس پاکستانی عوام کو فائد ہ پہنچے گا۔روس کے ہمارے تعلقات میں پیش رفت بہت اہم ہے۔

افغانستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے محمد خالد جمالی نے کہا کہ ہمارا ایک بہت ہی مثبت اور تعمیری نقطہ نظر ہے اور ہمیں پختہ یقین ہے کہ علاقائی ممالک پاکستان کے ساتھ روابط کے خواب کو شرمندہ تعبیر کریں گے۔ اور یہ صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جب امن اور استحکام ہو، اور سب کی کوششوں سے یہ پرانے سلک روٹ کی بحالی کیلئے کام کرنے کیلئے تیار ہیں۔ دنیا بدل رہی ہے ، کثیرالجہتی ہونے والے نظام میں روس کے ساتھ ہمارے تعلقات مستحکم ہورہے ہیں اور ہم بہت سے بین الاقوامی فورمز پر تعاون کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وہ درست سمت میں مجھے امید ہے کہ آنے والے وقت کے ساتھ ہم اچھے تعلقات استوار کر سکیں گے –

اس کانفرنس سے خظاب کرتے ہوئے پاکستان میں روس کے سابق سفیر دانیلہ گانچ نے کہا کہ دونوں ممالک اس بات سے واقف ہیں کہ آج کی دنیا انتہائی خطرناک ہو چکی ہے اور وہ بنیادی طور پر عالمی تصادم اور نئے استعمار کے مقابلے میں تعاون اور مساوات کے جذبے کو فروغ دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم جارحیت کے خلاف کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں اور کسی بھی قسم کی انتہا پسندی کے خلاف کھڑے ہیں جن میں نیو لبرل اقدار بھی شامل ہیں جو کہ ہمارے روایتی انداز اور ثقافتی اقدار کے خلاف ہیں۔

اس بین الاقوامی کانفرنس کے مہمان خصوصی سینیٹ آف پاکستان کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین سینیٹر ولید اقبال نے ایک ویڈیو پیغام میں دونوں ممالک کے درمیان فکری مکالمے کی روایت کو برقرار رکھنے پر زور دیا۔ دوطرفہ تعلقات کو ان کے مزید میل جول کے بڑھتے ہوئے راستے پر آگے بڑھانا۔ کانفرنس کے پہلے سیشن کے دوران سرکاری سفارت کاری کے نمائندوں کے علاوہ پاکستان اور روس کے علمی اداروں، مراکز اور تنظیموں کے سرکردہ سائنسدانوں اور ماہرین نے مخلوط آن لائن بیرونی فارمیٹ میں اپنے مقالے پیش کئے۔ جنرل ڈائریکٹر، تجزیاتی مرکز برائے بین الاقوامی تعلقات ”پاکستان ہاؤس” محمد اطہر جاوید، اسلام آباد انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی ریسرچ (آئی پی آر آئی) کے صدر جنرل رضا محمد، روسی سفارتخانہ میں تھرڈ سیکرٹری ایس اے پوڈوپلوف، انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل سٹڈیز لدمیلہ ویسیلوا – یورال اسٹیٹ پیڈاگوجیکل یونیورسٹی کی ریکٹر، سویت لانہ، علیگروینا مینیاریووا نے بھی مقالے پیش کئے۔

پاکستان سے روس آئے ہوئے پاکستانی صحافی، محقق او ردانشور الماس حیدر نقوی نے اپنا مقالہ پیش کیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ جغرافیائی سیاسی اور جغرافیائی اقتصادی سطح پر موزونیت کے پس منظر میں تہذیبی اور ثقافتی اشتراکات بھی پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے میں کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ روسی صدر ولادیمر پیوٹن کی جانب سے روس کو تہذیبی ریاست کے طور پر اعلان کا مطلب ہے کہ روس نے عالمگیریت کے لبرل ایجنڈے سے علیحدگی اختیار کر لی ہے جبکہ ”دوستانہ اسلامی تہذیب” کی ریاستوں کو روس کے ”قابل اعتماد شراکت دار” کے طور پر تسلیم کیا۔ تہذیبی اور ثقافتی سطح پر اشتراکا ت جن میں ثقافتی اور مذہبی روایات کا احترام، انفرادیت کے بجائے اجتماعیت،مظبوط خاندانی نظام اور اسلاموفوبیا کے خلاف یکساں موقف دنوں ممالک کو قریب لانے کیلئے موزوں ماحول فراہم کرتے ہیں۔

بین الاقوامی کانفرنس کے دوسرے اور تیسرے سیشن کی صدارت چیئرپروفیسر واے چیسلاو بیلوکرنیسکی اور شریک چیئر ارینا سرینکو نے کی۔جس میں پاکستان کے مطالعے کے وسیع موضوعات پر رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں سیاسی عمل اور مضبوط جمہوری اقدار کا پیچیدہ تاریخی راستہ، رواں ماہ 8 فروری کو ہونے والے ملک کی پارلیمنٹ کے عام انتخابات کے بعد ملک میں اقتدار کے لیے ایک نئی جمہوری طور پر منتخب حکومت کا ہونا ضروری ہے۔ امید ظاہر کی گئی کہ یہ منتخب حکومت روس اور دیگرعلاقائی ریاستوں کے ساتھ کثیر جہتی تعامل کے امکانات کو بڑھنے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔اس کانفرنس سے سکندر افضل، داریا سپرنسکایا، حمدان خان، پروفیسر شبانہ فیاض دیگر مقررین نے بھی مقالات پیش کئے۔
آخر میں کانفرنس کے شرکاء نے مشترکہ رائے کا اظہار کیا کہ پاکستان میں آنے والے پارلیمانی انتخابات کے نتیجے میں چاہے کوئی بھی پارٹی برسراقتدار آئے، تشکیل پانے والی نئی حکومت روس کے ساتھ کثیر جہتی تعاون کو وسعت دینے کے رجحان کو برقرار رکھے گی۔

Facebook Comments Box
انٹرنیشنل

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں