اشتیاق_ہمدانی
دنیا کے مختلف حصوں میں بسنے والے افراد مختلف نوعیت کی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ ایشیا اور افریقہ کے ممالک میں غربت، بے روزگاری، سیاسی عدم استحکام، قدرتی آفات اور تعلیمی مواقع کی کمی ایسی مسائل ہیں جو لاکھوں افراد کی زندگیوں کو متاثر کرتی ہیں۔ ان حالات میں، افراد بہتر زندگی کی تلاش میں اپنے وطن سے باہر نکلنے کا فیصلہ کرتے ہیں، اور ان کا مقصد صرف ایک ہوتا ہے: یورپ میں ایک بہتر مستقبل کی تلاش۔
یورپ، خاص طور پر مغربی ممالک جیسے جرمنی، فرانس، برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک، ان افراد کے لیے ایک ایسا خواب بنتے ہیں جو اپنی زندگی کے مسائل سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں۔ یورپ کو انہوں نے ایک جنت سمجھا ہوتا ہے، جہاں کام کے مواقع ہیں، تعلیم اور صحت کی سہولتیں ہیں، اور سب سے بڑھ کر وہاں کی معاشرتی سیکیورٹی اور امن و سکون کو ایک خواب کی مانند تصور کیا جاتا ہے۔
یہ لوگ اپنے گھروں، اپنے پیاروں، اور اپنی معمول کی زندگی کو چھوڑ کر، اپنی تمام جمع پونجی اور وسائل کا رخ یورپ کی جانب کرتے ہیں۔ اس کے لئے وہ سمندر پار کرنے کے خطرات مول لیتے ہیں، دریا کی بے رحم لہروں سے لڑتے ہیں، اور بعض اوقات اپنی جان تک گنواتے ہیں۔
سمندری راستوں سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے افراد کو سمندر کی بے رحم لہروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر، یہ سفر اتنا خطرناک ہوتا ہے کہ دریا میں سفر کرتے ہوئے کئی لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ کشتیوں میں بھرے ہوئے لوگ، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں، ایک سراب کی مانند یورپ کے ساحلوں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان میں سے کچھ لوگ تو خوش قسمتی سے بچ جاتے ہیں، لیکن بیشتر کی تقدیر میں غرقابی یا حادثات کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ واقعات یورپ پہنچنے کے خواب کے تاریک پہلو کو واضح کرتے ہیں، اور یہ بتاتے ہیں کہ اس خواب کو حقیقت میں بدلنا کتنا مشکل اور مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔
اگرچہ سمندر کے راستے سے زندگی کا یہ رسک لینے والے افراد میں سے کچھ یورپ تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، لیکن جب وہ وہاں پہنچتے ہیں تو انہیں وہ جنت نہیں ملتی جس کا انہوں نے خواب دیکھا تھا۔ یورپ میں پہنچ کر انہیں مختلف قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سب سے پہلے، ان افراد کو قانونی حیثیت اور پناہ گزینی کے مسائل پیش آتے ہیں۔ یورپ کے ممالک میں پناہ گزینوں کے لیے سخت قوانین ہیں، اور انہیں وہاں قانونی طور پر رہنے کے لیے کئی پیچیدہ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھار انہیں پناہ دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے، اور وہ غیر قانونی طور پر وہاں رہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ، یورپ میں روزگار کے مواقع حاصل کرنا بھی ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ بیشتر افراد کو کام کرنے کے لیے غیر رسمی، کم اجرت والے، اور سخت حالات والے کام ملتے ہیں۔ انہیں اپنے وطن میں جو عزت اور مقام حاصل تھا، وہ یہاں آ کر کبھی نہیں ملتا۔ ان کے لیے ایک بہتر زندگی کی امیدیں دھندلی پڑ جاتی ہیں اور حقیقت میں یورپ آ کر وہ زیادہ مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یورپ میں پہنچ کر انہیں ایک اور بڑا مسئلہ ثقافتی اور معاشرتی اختلافات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زبان، رسم و رواج، اور مختلف معاشرتی اصولوں کی وجہ سے، نئے آ کر بسنے والے افراد کو مقامی معاشرے میں مکمل طور پر انضمام میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ اکثر وہ خود کو الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں اور اس تناؤ میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ جس معاشرتی نظام میں آئے ہیں، وہ ان کے لیے اجنبی اور مختلف ہے۔
یہاں تک کہ بعض یورپی ممالک میں تارکین وطن کے خلاف نسل پرستی اور تفریق کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ ان لوگوں کو کبھی کبھار اس بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ کہاں سے آئے ہیں اور ان کا پس منظر کیا ہے۔ اس قسم کے سلوک کی وجہ سے ان افراد کی ذہنی سکونت اور زندگی کی کوالٹی متاثر ہوتی ہے۔
یورپ میں آ کر کچھ افراد جو اپنے خوابوں کے ساتھ آئے تھے، وہ اپنے خوابوں کی حقیقت میں کئی بار مایوس ہو جاتے ہیں۔ وہ یورپ کو ایک جنت سمجھ کر آئے تھے، لیکن جلد ہی انہیں احساس ہوتا ہے کہ یہاں کی زندگی کی سختیاں اور چیلنجز بھی کم نہیں ہیں۔ ان کو یہ سمجھ آتا ہے کہ جو کچھ انہوں نے اپنے وطن سے بھاگ کر یورپ میں پہنچنے کے لئے کیا تھا، وہ اتنا آسان نہیں تھا جتنا انہوں نے سوچا تھا۔
یہاں تک کہ بعض افراد جو سخت محنت کرتے ہیں، وہ بھی اپنے مالی مسائل سے نمٹنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے اور پناہ گزینی کے مسائل ان کے لیے ایک مسلسل اور حل طلب بحران بن جاتے ہیں۔
یورپ کے پانی کی مثال ایسی ہے کہ سگا بھائی بھی اپ کو ۲/۳ دن مہمان رکھے گا۔ پھر کہے گا بھائی صاحب اپنا بندوبست کریں۔
اس شعر میں شاید حقیقی عکاسی کی گئی ہے۔
یوں تو مرنے کے لیے زہر سبھی پیتے ہیں
زندگی تیرے لیے زہر پیا ہے میں نے
یوں تو کشتی کا سفر کرکے یورپ پہنچنے والے ان تارکین وطن کو دوسری ذندگی ملتی ہے لیکن اج اٹلی کے قریب پیش آنے والے ایک حیرت انگیز واقعے میں، غیر قانونی تارکینِ وطن کو لے جانے والی کشتی میں ایک ذندگی نے سمندر کی لہروں میں پہلی بار انکھ کھولی۔
اس کشتی میں سوار ایک 8 ماہ کی حاملہ خاتون نے دورانِ سفر بچے کو جنم دے دیا۔
یہ واقعہ آج علی الصبح اس وقت پیش آیا جب ایک لکڑی کی کشتی میں 67 تارکینِ وطن لیبیا سے غیر قانونی طور پر اٹلی کی طرف جا رہے تھے۔
سخت موسم اور تیز ہواؤں کے باعث کشتی اپنا توازن کھو بیٹھی، جس سے کشتی پر سوار افراد کی زندگیوں کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا۔ تاہم، اٹالین کوسٹ گارڈز نے فوری کارروائی کرتے ہوئے کشتی پر موجود تمام افراد کو
بحفاظت ریسکیو کر لیا۔
کشتی چل تو 67 افراد سوار تھے۔
منزل پر 68 افراد پہنچے۔
اچھے مستقبل کے لئے یورپ کا انتخاب مت کریں۔ کروونا اور یوکرین جنگ اور یورپی حکمرانوں کے غلط پالیسیوں اور امریکی غلامی کے باعث اب یورپ میں ذندگی بہت مشکل ہوچکی ہے۔ اپنا سب کچھ برباد کرنے کے بجائے جو ہے اس سے کچھ کرلیں ، دور کے ڈھول سننے میں ہی سہانے ہوتے ہیں۔
درختوں پر ڈالر اور ان درختوں کے نیچے اپ کی منتظر گوری دوشیزائیں نہیں ہوتیں۔
اس نومولود کے لئے دعا ہے کہ جن حالات کے باعث اس کی ماں اس کو پیٹ میں لیکر اپنا گھر ، گلی ، شہر ، وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئی ، خدا رب العزت ان کے حالات خوشیوں اور خوشحالی کے ساتھ بدل دے ۔
یورپ میں ایک بہتر زندگی کا خواب دیکھنے والے افراد کے لئے یہ سچائی ایک تلخ حقیقت بن جاتی ہے کہ وہ جو کچھ بھی کرنے نکلے تھے، وہ اتنا آسان نہیں تھا جتنا انہوں نے سوچا تھا۔ ان کی زندگی میں بے شمار چیلنجز اور مسائل آتے ہیں جو اکثر ان کے خوابوں کو ٹوٹتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کے لئے یورپ کی حقیقت زیادہ تر وہ نہیں جو انہوں نے سوچا تھا، اور ان کی امیدیں اکثر چکنا چور ہو جاتی ہیں-
ان حالات میں یہ ضروری ہے کہ ہم اس بات کا ادراک کریں کہ یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں جنت جیسی زندگی کی تلاش کے پیچھے جو مشکلات ہیں، وہ نہ صرف ان افراد کے لئے بلکہ عالمی سطح پر ایک بڑی بحث کا آغاز کرتی ہیں۔ ان ممالک میں پہنچ کر جو افراد اپنے خوابوں کی تکمیل کے لئے لڑتے ہیں، ان کے تجربات ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ بہتر زندگی کی تلاش میں قدم رکھنے سے پہلے، ہمیں اپنی حقیقت اور دنیا کے حالات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔
ان ایشیائی اور افریقی ممالک کے حکمرانوں کو ہدایت دے، جو وسائل اور کرسی پر قابض ہوکر اپنے عوام کے جسموں پر حکومت کرنے کے نشہ میں مدہوش ہیں۔
یقیننا اچھی ذندگی یا کم ازکم غربت کی لکیر سے نیچے یہ لوگ ذندگی گذارنے پر مجبور نہ ہوتے تو یوں سمندر کی بے رحم موجوں پر خوشحال زندگی گذارنے کا انتخاب نہ کرتے۔