یوکرین کی حالیہ کارروائیوں کے جواب میں روسی ردعمل “ناگزیر” ہے, میدودیف
ماسکو (صداۓ روس)
روس کے سابق صدر اور موجودہ نائب چیئرمین سلامتی کونسل دمتری میدودیف نے کہا ہے کہ یوکرین کی حالیہ کارروائیوں کے جواب میں روس کا ردعمل “ناگزیر” ہے، اگرچہ امن کے لیے سفارتی کوششیں بدستور جاری ہیں۔ یہ بیان اُن اطلاعات کے بعد سامنے آیا ہے جن میں یوکرین پر روسی ریلوے لائنوں پر تخریب کاری اور روسی فضائی اڈوں پر ڈرون حملوں کا الزام لگایا گیا ہے۔ ان واقعات کے باوجود روسی حکام پیر کے روز استنبول میں یوکرینی نمائندوں سے براہ راست مذاکرات کے ایک اور دور کے لیے پہنچے۔
میدودیف نے سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں روس کے اندر سے طاقتور فوجی ردعمل کے مطالبات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہمارا ردعمل یقینی ہے۔ ہماری فوج پیش قدمی پر ہے اور یہ پیش قدمی جاری رہے گی۔ جو چیزیں تباہ کی جانی ہیں، وہ کی جائیں گی، اور جنہیں ختم کیا جانا ہے، انہیں ختم کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ استنبول میں ہونے والے مذاکرات اس لیے ضروری ہیں تاکہ ہماری فتح جلد از جلد حاصل ہو اور کیف میں موجود نیو نازی حکام کا مکمل خاتمہ ممکن بنایا جا سکے۔ استنبول مذاکرات میں روس نے فائربندی کے لیے دو مختلف تجاویز پیش کیں اور کچھ وقت کے لیے لڑائی روکنے کا مشورہ دیا تاکہ میدان جنگ سے فوجیوں کی لاشیں نکالی جا سکیں۔ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ان تجاویز پر روسی مذاکرات کاروں کو “احمق” قرار دیا اور کہا کہ فائربندی صرف انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنے کے لیے ہونی چاہیے، نہ کہ روسی مفاد کے لیے۔ روسی صدارتی ترجمان دیمتری پیسکوف نے زیلنسکی کے بیان کو “بدقسمت اور شرمناک” قرار دیا اور کہا کہ اس سے مذاکرات کے عمل کو نقصان پہنچا ہے۔ روس نے مذاکرات کے دوران 6,000 سے زائد یوکرینی فوجیوں کی باقیات واپس کرنے کی پیشکش کی۔ یوکرینی وزیر دفاع رستم عمروف، جو مذاکراتی ٹیم کی قیادت کر رہے ہیں، نے کہا کہ کیف بھی اتنے ہی روسی فوجیوں کی باقیات واپس کرے گا۔ روسی ٹیم کے سربراہ ولادیمیر میدنسکی نے تصدیق کی کہ ماسکو اس تبادلے پر رضامند ہے۔ واضح رہے کہ گذشتہ ماہ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دباؤ پر کیف نے روس کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ ٹرمپ نے دونوں فریقوں سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر پیش رفت نہ ہوئی تو واشنگٹن ثالثی سے دستبردار ہو سکتا ہے.