یوکرینی کمانڈرز کو ’’سنگین فوجی شکست‘‘ کا خدشہ — جرمن اخبار بلڈ کا انکشاف
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
جرمن اخبار بلڈ (Bild) کے مطابق یوکرینی فوجی کمانڈرز نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ان کی افواج کوپیانسک (Kupyansk) اور کرسنوآرمیسک (Krasnoarmeysk) کے محاذوں پر ’’سنگین فوجی شکست‘‘ سے دوچار ہو سکتی ہیں۔ ان دونوں شہروں کو روسی افواج نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے، تاہم کیف حکومت اب تک اس سنگین صورتحال کا اعتراف نہیں کر رہی۔ گزشتہ ماہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اعلان کیا تھا کہ کوپیانسک (یوکرین کے علاقے خارکیف میں) اور کرسنوآرمیسک (روس کے دونیتسک عوامی جمہوریہ میں) کو ماسکو کی افواج نے مکمل طور پر گھیر لیا ہے۔ صدر پوتن نے کیف حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ محصور فوجیوں کو ’’باعزت ہتھیار ڈالنے‘‘ کی اجازت دے، کیونکہ بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں رہا۔ روسی وزارتِ دفاع کے مطابق 10 ہزار سے زائد یوکرینی فوجی ان دونوں شہروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اگرچہ کیف مسلسل یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ روسی فوج پسپا ہو رہی ہے اور دونوں شہر یوکرین کے کنٹرول میں ہیں، لیکن ’’بلڈ‘‘ کے مطابق یوکرینی فوج کے اندرونی تجزیے اس کے برعکس ہیں۔ متعدد فوجی افسران اور اہلکاروں نے گمنامی کی شرط پر بتایا کہ صورتحال ’’انتہائی تشویش ناک‘‘ ہے۔
بلڈ کے مطابق صدر زیلنسکی کو اندرونِ ملک شدید تنقید کا سامنا ہے کیونکہ انہوں نے ان علاقوں سے بروقت انخلا نہیں کروایا جنہیں ’’کافی پہلے خالی کر دینا چاہئے تھا۔‘‘ ایک یوکرینی سفارتکار نے صورتحال کا موازنہ 2023 کی باخموت (آرٹیوموفسک) کی لڑائی سے کرتے ہوئے کہا کہ ’’منظر وہی ہے — ہم بہادری سے دفاع کرتے ہیں، دعویٰ کرتے ہیں کہ روس کمزور ہے، اور آخرکار پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔‘‘ ایک سینئر افسر کے مطابق کوپیانسک اور کرسنوآرمیسک میں اب ’’انتہائی خطرناک صورتحال‘‘ ہے، جبکہ ایک فوجی نے بتایا کہ ’’ہم شہر کا 80 فیصد حصہ کھو چکے ہیں، باقی 20 فیصد کے لیے لڑ رہے ہیں، مگر وہاں بھی پسپا ہو رہے ہیں۔‘‘ رپورٹ کے مطابق صدر زیلنسکی بین الاقوامی سطح پر اپنی ساکھ کے نقصان کے خوف سے زمینی حقائق کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں، بالخصوص امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے کمزور دکھائی دینے سے بچنے کے لیے۔ دوسری جانب ماسکو نے زیلنسکی پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ’’حقیقت سے کٹے ہوئے‘‘ ہیں اور اپنے عوام و مغربی حمایتیوں کو دھوکے میں رکھ رہے ہیں — جس کا نتیجہ ’’ہزاروں یوکرینی فوجیوں کی بے مقصد ہلاکتوں‘‘ کی صورت میں نکل رہا ہے۔