کریملن میں پانچ گھنٹے طویل ملاقات میں یوکرین امن منصوبے پر اہم پیش رفت

Putin Putin

کریملن میں پانچ گھنٹے طویل ملاقات میں یوکرین امن منصوبے پر اہم پیش رفت

ماسکو (صداۓ روس)
روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی سٹیف وٹکوف اور داماد جیریڈ کشنر کے ساتھ کریملن میں یوکرین تنازعے کے حل پر پانچ گھنٹے سے زائد طویل ملاقات کی، جسے روس کے صدارتی معاون یوری عوشاکوف نے “بہت مفید، تعمیراتی اور معلوماتی” قرار دیا۔ ٹاس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اس ملاقات میں امریکی امن پلان کی مختلف تجاویز پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا، بشمول علاقائی مسائل، مگر کوئی حتمی سمجھوتہ نہ ہو سکا۔ عوشاکوف نے صحافیوں کو بتایا کہ “یوکرین بحران کے طویل مدتی پرامن حل” کے لیے کئی آپشنز پر غور کیا گیا، جن میں سے کچھ روس کے لیے قابل قبول ہیں جبکہ دیگر پر تنقید کی گئی۔ یہ ملاقات رات گئے تک جاری رہی اور اس کے فوراً بعد امریکی وفد نے ماسکو میں امریکی سفارت خانے کا رُخ کیا تاکہ ٹرمپ کو رپورٹ دی جائے۔

عوشاکوف نے بتایا کہ ملاقات میں امریکی طرف سے پہلے بھیجے گئے دستاویزات کا جائزہ لیا گیا، جن میں ٹرمپ کا 27 (یا بعض رپورٹس میں 28) نکات پر مشتمل ابتدائی امن پلان شامل تھا، جس کے بعد چار مزید دستاویزات موصول ہوئیں۔ “ہم نے ان دستاویزات کی اصل نوعیت پر بات کی، مخصوص الفاظ یا تجاویز پر نہیں”، انہوں نے کہا۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، یہ دستاویزات یوکرین اور یورپی اتحادیوں کے ساتھ حالیہ مذاکرات کے بعد نظر ثانی شدہ تھیں، جو 19 نکات تک محدود کر دی گئیں، مگر روس نے علاقائی تنازعات پر اصرار کیا۔ عوشاکوف نے زور دیا کہ “علاقائی مسائل پر خاص طور پر بحث ہوئی، مگر ابھی کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا”۔ انہوں نے مزید کہا کہ پوتن نے یورپیوں کی “تخریبی کارروائیوں” پر تنقید کی، جو امن عمل میں رکاوٹ بن رہی ہیں، اور خبردار کیا کہ اگر یورپ جنگ چاہتا ہے تو “ایسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جہاں مذاکرات کے لیے کوئی نہ بچے”۔

Advertisement

ملاقات کے نتائج کے بارے میں عوشاکوف نے واضح کیا کہ “کوئی کمپرومائز پلان ابھی موجود نہیں”، البتہ روس اور امریکہ یوکرین کے معاملے پر “مزید دور نہ ہوئے” اور رابطوں کا سلسلہ جاری رکھنے پر متفق ہو گئے۔ روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق، پوتن نے وٹکوف کے ذریعے ٹرمپ کو “دوستانه سلام” بھیجا اور کئی “اہم سیاسی اشارے” بھیجے، جنہیں امریکی طرف نے نوٹ کر لیا۔ ان اشاروں میں روس کی معاشی تعاون کی بڑی صلاحیتوں پر زور دیا گیا، جسے کشنر جیسے سرمایہ کاروں نے سراہا۔ عوشاکوف نے بتایا کہ کشنر کچھ عرصے سے یوکرین سے متعلق روس-امریکہ رابطوں میں شامل ہیں، اور ملاقات میں مستقبل کے اقتصادی تعلقات کی “عظیم امکانات” پر بھی بات ہوئی۔ تاہم، انہوں نے خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا اور دستاویزات کی تفصیلات ظاہر نہ کیں۔

آئندہ اقدامات پر بات کرتے ہوئے، عوشاکوف نے کہا کہ امریکی وفد نے وعدہ کیا ہے کہ وہ گھر واپس جا کر آج کی بحثوں کا جائزہ لیں گے اور پھر فون کالز کے ذریعے رابطہ کریں گے۔ “واشنگٹن اور ماسکو دونوں میں بہت کام باقی ہے، معاونین اور وزارت خارجہ کے ماہرین کی سطح پر محنت جاری رہے گی”، ان کا کہنا تھا۔ پوتن اور ٹرمپ کی ممکنہ ملاقات “اس راستے پر حاصل ہونے والی پیش رفت” پر منحصر ہو گی، مگر ابھی اس کی کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ ایکسس نیوز کی رپورٹ کے مطابق، امریکی وفد نے کیویو جانے کا وعدہ نہ کیا، بلکہ براہ راست امریکہ واپسی کا اعلان کیا، جس سے یوکرین کے صدر وولوڈیمیر زیلنسکی کو مایوسی ہوئی، جو وٹکوف سے فون کال کی توقع کر رہے تھے۔ زیلنسکی نے کہا کہ وہ کیویو میں “حقیقی مکالمے” کے لیے خوش آمدید کہیں گے، نہ کہ محض الفاظ کے لیے۔

یہ ملاقات اس سال وٹکوف کی چھٹی پوتن سے ملاقات تھی، جو اگست میں الاسکا سمٹ کے بعد پہلی براہ راست تھی۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، ملاقات “تعمیراتی اور مفید” تھی مگر علاقائی تنازعات پر رکاوٹ اب بھی موجود ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کا امن پلان روس کی طرف جھکا ہوا لگ رہا ہے، جس پر یوکرین اور یورپ نے تنقید کی ہے۔ روس کے اتحادیوں کا خیال ہے کہ یہ پلان ماسکو کی دلچسپیوں پر مبنی ہے، جبکہ مغربی میڈیا میں اسے “امریکی سفارت کاری کی تبدیلی” قرار دیا جا رہا ہے۔ عوشاکوف کی بیانات سے واضح ہے کہ امن عمل طویل اور پیچیدہ ہو گا، مگر رابطوں کی تسلسل ایک مثبت اشارہ ہے۔