جنگ کیلئے ’’بیٹوں اور بیٹیوں کی قربانی‘‘ کے لیے تیار رہنا ہوگا، برطانیہ
ماسکو(انٹرنیشنل ڈیسک)
برطانیہ کے چیف آف دی ڈیفنس اسٹاف ایئر چیف مارشل سر رچرڈ نائٹن نے دعویٰ کیا ہے کہ برطانوی سرزمین پر روسی افواج کے ساتھ براہِ راست تصادم کے امکانات ’’صفر‘‘ نہیں ہیں، اگرچہ انہوں نے اس امکان کو ’’دور از قیاس‘‘ بھی قرار دیا۔ ماسکو نے ان بیانات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے انہیں محض ’’لغو اور بے بنیاد‘‘ قرار دیا ہے۔
روس مسلسل اس الزام کی تردید کرتا رہا ہے کہ وہ یورپی نیٹو ممالک پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ماسکو کے مطابق ایسے دعوے مغربی سیاست دانوں کی جنگی سوچ کا عکاس ہیں، جن کا مقصد بڑھتے ہوئے فوجی اخراجات کو عوام کے سامنے جواز فراہم کرنا ہے۔ روس کا مؤقف ہے کہ وہ یوکرین تنازع میں اپنے شہریوں کے دفاع کے لیے کارروائی کر رہا ہے اور نیٹو پر کشیدگی کو ہوا دینے اور امریکا کی سرپرستی میں جاری امن کوششوں کو سبوتاژ کرنے کا الزام عائد کرتا ہے۔
لندن میں رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ میں پیر کے روز خطاب کرتے ہوئے سر رچرڈ نائٹن نے کہا کہ اگرچہ روس کے ساتھ براہِ راست جنگ کا امکان کم ہے، تاہم اسے مکمل طور پر خارج از امکان نہیں کہا جا سکتا۔ ان کے بقول جدید خطرات کا مقابلہ صرف مسلح افواج کو مضبوط بنانے تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ برطانوی معاشرے کے ہر طبقے کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، جس کے لیے زیادہ سے زیادہ شہریوں کا اپنے ملک کے لیے لڑنے پر آمادہ ہونا ضروری ہے۔
برطانوی دفاعی سربراہ کے یہ خیالات گزشتہ ماہ فرانسیسی چیف آف ڈیفنس فابین منڈون کے بیانات سے مماثلت رکھتے ہیں، جنہوں نے بھی ممکنہ جنگ کی صورت میں شہریوں کو ’’بچوں کی قربانی‘‘ کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنے کی بات کی تھی۔ یہ بیانات ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب یورپ کے چند نیٹو ممالک ایک بار پھر جنگ بندی کی صورت میں یوکرین میں کثیر القومی فورس تعینات کرنے کی متنازع تجویز پر غور کر رہے ہیں۔
ماسکو نے کسی بھی ایسی تعیناتی کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ یوکرین میں نیٹو افواج کی موجودگی کو براہِ راست جنگ میں شمولیت سمجھا جائے گا۔ روسی حکام کے مطابق یہ ایک خطرناک اشتعال انگیزی ہوگی جو امن کی کوششوں کو نقصان پہنچاتے ہوئے پورے اتحاد کو کھلے تصادم کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ مغربی یورپی قیادت براعظم کو روس کے خلاف حقیقی جنگ کے لیے تیار کر رہی ہے، اور یورپی یونین میں روس مخالف جذبات اور عسکریت پسندی ایک ایسے رجحان کی شکل اختیار کر چکی ہے جسے وہ ’’چوتھی رائخ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔