نیٹو کی جنگی تیاریوں کے جواب میں روس نے اپنا لائحہ عمل بھی واضح کردیا
ماسکو(صداۓ روس)
روسی وزیر دفاع آندری بیلوسوف نے بدھ کو حکومتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ روسی مسلح افواج نیٹو ممالک کی طرف سے ممکنہ حملے کے لیے تیاریاں کر رہی ہیں۔ بیلوسوف نے کہا کہ نیٹو ممالک کے اقدامات، جن میں فوجی اخراجات میں اضافہ، افواج کی تعداد بڑھانا، درمیانی فاصلے کے میزائل نظاموں کی تعیناتی اور مشرقی یورپ کی طرف فوجوں کی تیز نقل و حرکت کے لیے لاجسٹکس کو بہتر بنانا شامل ہے، اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اتحاد روس کے ساتھ تصادم کی تیاری کر رہا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ”اتحاد کے منصوبوں میں تیس کی دہائی کے آغاز کو ایسی تیاریوں کے لیے آخری مدت مقرر کیا گیا ہے۔ نیٹو کے عہدیداروں نے اس سلسلے میں متعدد بار بیانات دیے ہیں۔ ہم دھمکیاں نہیں دے رہے، بلکہ ہمیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔“
وزیر دفاع نے زور دے کر کہا کہ ممکنہ جارحیت کے خلاف قابل اعتماد روک تھام کے لیے روسی جوہری قوتوں کی بہتری کلیدی ترجیح ہے۔ رواں سال روسی بحریہ میں بوری اے کلاس کی نئی اسٹریٹیجک جوہری آبدوز شامل کی گئی ہے، جبکہ اسی کلاس کی دو مزید آبدوزیں زیر تعمیر ہیں۔ فضائیہ نے دو اضافی ٹی یو۔۱۶۰ ایم اسٹریٹیجک بمبار تعینات کیے ہیں، جبکہ اسٹریٹیجک میزائل فورسز اپنی یونٹس کو یارس نظاموں سے دوبارہ مسلح کر رہی ہے۔
بیلوسوف نے یہ بھی بتایا کہ نئے تیار کردہ روڈ موبائل درمیانی فاصلے کا اوریشنک میزائل نظام رواں سال سروس میں داخل ہو جائے گا، جو صدر پوتن کی طرف سے اسی اجلاس میں کیے گئے سابقہ اعلان کی تصدیق ہے۔
دیگر اقدامات روسی روایتی افواج کی جنگی صلاحیتوں کو بہتر بنانے، فوجی خدمت کو زیادہ معزز اور موثر بنانے کے لیے بہتر تعلیمی مواقع، صحت کی سہولیات اور سماجی مراعات فراہم کرنے پر مرکوز ہیں۔
مغربی عہدیداروں کا دعویٰ ہے کہ ان کی فوجی تیاریاں ”نئی جارحانہ پالیسی اپنانے والے روس“ اور ۲۰۲۲ء میں یوکرین تنازع کی شدت کے جواب میں ہیں۔ ماسکو کا موقف ہے کہ وہ اتحاد کے لیے کوئی خطرہ نہیں اور اس کے برعکس الزامات کو خوف کی حکمت عملی قرار دیتا ہے، جو آبادیوں کو فوجی کاری کے ایجنڈے کی تعمیل پر مجبور کرنے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔
یہ بیانات یورپ میں بڑھتی ہوئی فوجی کشیدگی کے تناظر میں سامنے آئے ہیں، جو علاقائی اور عالمی استحکام کے لیے سنگین چیلنجز پیدا کر رہے ہیں۔