ہومتازہ ترینملک میں موجود دشمن ممالک کے اثاثے ضبط کر سکتے ہیں، روس

ملک میں موجود دشمن ممالک کے اثاثے ضبط کر سکتے ہیں، روس

ملک میں موجود دشمن ممالک کے اثاثے ضبط کر سکتے ہیں، روس

ماسکو(صداۓ روس)
روس نے کہا ہے کہ ملک میں موجود دشمن ممالک کے اثاثے ضبط کر سکتے ہیں. روس کے ایک اعلی عہدیدار نے دھمکی دی ہے کہ وہ انتقامی کارروائی کے طور پر یہ قدم اٹھا سکتے ہیں. روسی پارلیمنٹ دوما کے اسپیکر نے لیتھوانیا ، لیٹویا اور پولینڈ جیسے ممالک حتی امریکہ پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے اور ڈاکا ڈالنے کا الزام لگایا ہے۔ انھوں نے روس کے دشمن ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مہذب روش اختیار کریں اور بین الاقوامی قوانین کا احترام کریں ۔

روسی پارلیمنٹ ڈوما کے اسپیکر ویاچسلاو ولودین نے کہا کہ وہ کمپنیاں جو روس میں قائم ہیں اور ان کے مالک روس کے دشمن ممالک کے شہری ہیں جو روسی اثاثے منجمد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ان کے سلسلے میں جوابی کارروائی اور ان کے اثاثے ضبط کرلینا منصفانہ اقدام ہے۔ روس کے اسپیکرکا یہ بیان امریکی صدر جوبائیڈن کے اس بل کے بعد سامنے آیا ہے جو انھوں نے روس پر اقتصادی دباؤ بڑھانے کے لئے ، روسی سرمایہ داروں اور کارپوریٹ گھرانوں کے اثاثے منجمد کرنے کے سلسلے میں کانگریس میں پیش کیا ہے۔

امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلینکن نے ابھی حال ہی میں کہا ہے کہ واشنگٹن روسی حکومت کے اثاثے منجمد کرنےاور اسے یوکرین کی مدد کے لئے استعمال کرنے کا جائزہ لے رہا ہے ۔ روسی ایوان صدر، کرملین کے ترجمان دیمیتری پسکوف نے بلینکن کے بیان پر ردعمل میں کہا ہے کہ امریکی کانگریس کا بل ذاتی اموال اوراثاثوں کو ہڑپنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ روسی پارلیمنٹ کے اسپیکر کا انتباہ درحقیقت اپنے شہریوں کے اثاثے منجمد کرنے اور اسے یوکرین کے حوالے کرنے کے کسی بھی اقدام کے سلسلے میں ماسکو کے سرکاری موقف کی حیثیت رکھتا ہے۔

امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے یوکرین پر روس کے حملے کے بہانے ماسکو پر تقریبا تین ہزار مزید پابندیاں عائد کردی ہیں اور یہ پابندیاں اس بات کا باعث بنی ہیں کہ روس، دنیا کے ان ملکوں میں سر فہرست آجائے جنہیں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی پابندیوں کا سامنا ہے ۔ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی، یوکرین جنگ کو روس سے بدلہ لینے کا بہترین موقع سمجھتے ہیں اور اس پر مفلوج کن پابندیاں عائد کرکے اپنے دیرینہ سیاسی و فوجی حریف کو زیادہ سے زیادہ کمزور کرنا چاہتے ہیں۔

Facebook Comments Box
انٹرنیشنل