پاکستان (صدائے روس )
گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان، جمیل احمد خان نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی واشنگٹن میں جاری دو ہفتوں پر محیط اسپرنگ میٹنگز کی وجہ سے پاکستان کو قرض کی اگلی قسط موصول ہونے میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مارچ 2025 میں افراط زر کی شرح 0.7 فیصد کی کم ترین سطح پر تھی، تاہم آئندہ ماہ سے اس میں اضافہ متوقع ہے۔
انہوں نے یہ بات پاکستان فنانشل لٹریسی ویک کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی، جہاں انہوں نے ملک میں مالیاتی شمولیت اور آگہی کو فروغ دینے کے لیے مختلف سرگرمیوں کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مالیاتی تعلیم دنیا بھر میں اہمیت اختیار کر چکی ہے، اور پاکستان بھی اس میں پیچھے نہیں ہے۔
جمیل احمد نے بتایا کہ 2015 میں بالغ بینک اکاؤنٹ ہولڈرز کی شرح 16 فیصد تھی جو اب بڑھ کر 64 فیصد ہو چکی ہے۔ نیشنل فنانشل لٹریسی پروگرام کے تحت اب تک 3.2 ملین افراد کو تربیت دی گئی ہے۔ بلوچستان میں اساتذہ کو خصوصی تربیت بھی فراہم کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بینکنگ پالیسی میں صنفی توازن کو بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، خواتین کی مالیاتی شمولیت بڑھانے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں، اور اکاؤنٹ کھولنے کے آسان ڈیجیٹل طریقے متعارف کروائے گئے ہیں۔ راست جیسے ڈیجیٹل پلیٹ فارم نے مالیاتی خدمات کو عام لوگوں تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ آج ایک تاریخی دن ہے کیونکہ مالیاتی لٹریسی کا قومی روڈ میپ 2025 تا 2029 جاری کیا جا رہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت مالیاتی تعلیم کو قومی نصاب میں شامل کیا جائے گا اور وزارت تعلیم کے ساتھ مل کر اس پر کام کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مالیاتی آگہی مہم میں تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول میڈیا، تعلیمی ادارے، اور کاروباری ادارے شامل ہیں۔ ہر پاکستانی کو اس مہم کا حصہ بنایا جائے گا تاکہ قومی معیشت کو مستحکم کیا جا سکے۔
جمیل احمد نے کہا کہ 2028 تک مالیاتی شمولیت کا تناسب 64 فیصد سے بڑھا کر 75 فیصد تک لانے کا ہدف ہے، جبکہ خواتین کی مالی خدمات تک رسائی میں موجود 34 فیصد کے فرق کو کم کرکے 25 فیصد تک لایا جائے گا۔
انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی معیشت کے بارے میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی اسسمنٹ جلد متوقع ہے۔ اسٹیٹ بینک نے رواں مالی سال کے لیے 3 فیصد معاشی شرح نمو کا تخمینہ لگایا ہے، تاہم زرعی شعبے کی کم کارکردگی کی وجہ سے ترقی محدود رہی ہے۔ اگر زرعی شعبہ گزشتہ سال جیسا ہوتا تو شرح نمو 4.2 فیصد تک پہنچ سکتی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ترسیلات زر کا حجم 4.1 ارب ڈالر رہا ہے، جس کا سہرا بیرون ملک محنت کرنے والے پاکستانیوں کو جاتا ہے۔ فارن ایکسچینج اصلاحات کی بدولت غیر رسمی چینلز کی بجائے قانونی ذرائع سے ترسیلات موصول ہو رہی ہیں۔ رواں سال کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رہے گا، جبکہ ترسیلات کا ہدف 38 ارب ڈالر ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ اس سال نان آئل امپورٹ کا حجم ماہانہ 3.8 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے، اور سال کے اختتام تک زرمبادلہ کے ذخائر 14 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔
امریکی ٹیریف کے اثرات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل کی برآمدات پر معمولی اثر پڑ سکتا ہے، تاہم تیل کی قیمتوں میں کمی سے معیشت کو فائدہ ہوگا۔ مجموعی طور پر پاکستان کی معیشت پر امریکی ٹیریف کا اثر محدود رہے گا۔