برطانیہ میں امریکی جوہری بم، کریملن کا انتباہ
روس نے برطانیہ میں امریکی جوہری ہتھیاروں کی مبینہ تعیناتی کو “ایٹمی عسکریت پسندی” قرار دیتے ہوئے ایک بار پھر مغرب پر کشیدگی میں اضافے کا الزام عائد کیا ہے۔ کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے منگل کے روز صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس ماحول میں جوہری طاقتوں کے گروپ “نیوکلئیر فائیو” کا سربراہی اجلاس منعقد کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ پیسکوف سے اس رپورٹ کے بارے میں سوال کیا گیا تھا کہ امریکہ نے تقریباً دو دہائیوں بعد پہلی بار برطانیہ میں اپنے بی 61-12 تھرمو نیوکلئیر بم تعینات کیے ہیں۔ اس حوالے سے تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ گذشتہ ہفتے نیو میکسیکو کی کرٹ لینڈ ایئرفورس بیس سے ایک C-17 طیارہ برطانیہ کے رائل ایئر فورس لیکن ہیتھ بیس پر اترا، اور اس کا انداز ایسا تھا جیسے وہ صرف سامان گرانے آیا ہو۔ اگر یہ رپورٹ درست ثابت ہوتی ہے تو 2008 کے بعد یہ پہلا موقع ہوگا کہ امریکی جوہری ہتھیار دوبارہ برطانیہ میں تعینات کیے گئے ہیں۔
پیسکوف نے کہا ہمارے متعلقہ ادارے اس پیش رفت پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں اور ہماری سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ہم کشیدگی میں دانستہ اضافے اور ایٹمی عسکریت پسندی کے رجحان کو دیکھ رہے ہیں، ایسے ماحول میں سربراہی اجلاس کی گنجائش نہیں۔ واضح رہے کہ صدر ولادیمیر پوتن نے 2020 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل پانچ اراکین — روس، چین، امریکہ، برطانیہ اور فرانس — پر مشتمل نیوکلئیر فائیو کا اجلاس بلانے کی تجویز دی تھی، جس پر اب دوبارہ غور کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ تاہم، موجودہ حالات میں روس اس تجویز کو قابلِ عمل نہیں سمجھتا۔ ادھر امریکی فضائیہ اور برطانوی حکام نے تاحال اس مبینہ تعیناتی پر کوئی باضابطہ تبصرہ نہیں کیا ہے، جب کہ رپورٹنگ اداروں میں “دی ٹائمز” اور “دی وار زون” شامل ہیں جنہوں نے اس خبر کو شائع کیا۔ رائل ایئر فورس لیکن ہیتھ وہی بیس ہے جہاں سرد جنگ کے دوران بھی امریکی جوہری ہتھیار موجود رہے تھے۔