اسلام آباد: (صدائے روس)
وفاقی دارالحکومت کے سیکٹر E-11 میں زمین کی مبینہ خردبرد اور غیر قانونی الاٹمنٹ کے کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے اہم پیش رفت کرتے ہوئے 9 ملزمان کے خلاف احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کر دیا ہے۔
ریفرنس میں شامل ملزمان میں متعلقہ پٹواری، سی ڈی اے کے سابق افسران اور گولڑہ شریف دربار کے افراد شامل ہیں۔
ملزمان کے نام درج ذیل ہیں:
خالد محمود (سابق ڈائریکٹر لینڈ سی ڈی اے)، شائستہ سہیل، راجہ زاہد حسین، سید غلام حسام الدین، سید غلام نجم الدین گیلانی، سید غلام شمس الدین گیلانی، سید غلام نظام الدین گیلانی اور سید غلام محی الدین گیلانی۔
ریفرنس 8 صفحات پر مشتمل ہے، جس کی رجسٹرار آفس میں اسکروٹنی شروع ہو چکی ہے، جس کے بعد اسے سماعت کے لیے عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
ریفرنس کے مطابق، ایک سورس رپورٹ کی بنیاد پر سیکٹر E-11 میں سرکاری زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ کا انکشاف ہوا۔
نیب انکوائری 20 اپریل 2016 کو منظور ہوئی، جو 8 جون 2018 کو باضابطہ تحقیقات میں تبدیل ہوئی۔
تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ سی ڈی اے کے سابق افسران نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے سرکاری زمین ملزمان کو الاٹ کی اور ذاتی فوائد حاصل کیے۔
21 فروری 2024 کو ملزم غلام حسام الدین اور تین خواتین نے پلی بارگین کی درخواست بھی دی، جس سے نیب کے مطابق ان کا جرم ثابت ہوتا ہے۔
ریفرنس میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ ملزمان کو سزا دی جائے اور کرپٹ پریکٹسز کے مطابق کارروائی کی جائے۔
گولڑہ شریف دربار کے فیملی ممبران کے نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم
اسلام آباد ہائی کورٹ نے گولڑہ شریف دربار سے تعلق رکھنے والے تین فیملی ممبران کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کرنے کا حکم معطل کر دیا۔
یہ فیصلہ جسٹس محسن اختر کیانی نے سنایا اور کہا کہ اکتوبر تک نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم مؤخر رہے گا۔
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ سیکٹر E-11 زمین خردبرد کیس میں ریفرنس دائر ہو چکا ہے۔
اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ نیب کی جانب سے ایسی کارروائیوں کا مقصد لوگوں کو عدالتوں میں گھسیٹنا لگتا ہے، نیب اختیارات کے غلط استعمال کا مرتکب رہا ہے، جس کی وجہ سے بعد میں دو اہم ترامیم بھی آئیں جن سے نیب کے اختیارات محدود ہو گئے۔
جسٹس کیانی نے سوال کیا کہ کیا سی ڈی اے کے اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا؟
نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا: نہیں۔
جس پر جسٹس کیانی نے تنقیدی ریمارکس دیے کہ اگر گرفتاری نہیں ہوئی تو ثبوت کہاں سے آئے؟
جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہا کہ نیب ہر سول کیس کو کریمنل کیس میں بدل دیتا ہے، جو مناسب نہیں۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر عدالت یہ مان لے کہ سی ڈی اے نے غلطی کی ہے تو کیا ملزمان کے خلاف کارروائی درست ہے؟
عدالت کے اہم احکامات:
عدالت نے نیب تحقیقات کے خلاف دائر مرکزی کیس کی آئندہ سماعت 28 اپریل مقرر کر دی۔
عدالت نے نیب سے حتمی دلائل اور پیش رفت رپورٹ طلب کی ہے۔
نیب کی جانب سے وکیل قیصر امام، سی ڈی اے حکام اور گولڑہ شریف خاندان کے وکلاء عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے نیب کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “انتظامی بدنظمی کی وجہ سے کیسز غلط بنچوں میں لگتے ہیں، یہ روز کا معمول بن چکا ہے۔”
خلاصہ:
سیکٹر E-11 میں زمین خردبرد کا کیس سنگین نوعیت اختیار کر چکا ہے، اور سی ڈی اے افسران و گولڑہ شریف خاندان کو اس میں ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کی کارروائیوں پر سوالات اٹھائے اور فیملی ممبران کے ای سی ایل شامل ہونے کا حکم معطل کر دیا۔
نیب نے کیس کو کرپشن اور کرپٹ پریکٹس قرار دیا ہے، لیکن عدالت نے آئندہ سماعت میں ٹھوس شواہد پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔