کوئی بھی نیٹو رکن ملک روس کا اگلا ہدف بن سکتا ہے، نیٹو چیف کا انتباہ

Mark Rutte Mark Rutte

کوئی بھی نیٹو رکن ملک روس کا اگلا ہدف بن سکتا ہے، نیٹو چیف کا انتباہ

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
شمالی اوقیانوس کے دفاعی اتحاد نیٹو کے سیکریٹری جنرل مارک روٹے نے یورپی اتحادیوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ مستقبل میں روس کے ممکنہ ہدف بن سکتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ دفاعی اخراجات میں تیزی سے اضافہ ناگزیر ہے تاکہ ایسی جنگ کو روکا جا سکے جیسی ماضی میں یورپ کی پچھلی نسلوں نے دیکھی تھیں۔ مارک روٹے نے یہ بات جرمنی کے دارالحکومت برلن میں منعقدہ میونخ سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کے دوران کہی، جہاں یورپی رہنما روس اور یوکرین کے درمیان جاری طویل جنگ کے خاتمے کے لیے پیش کی گئی ایک مجوزہ امن تجویز پر غور کر رہے تھے۔ یہ مباحث ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب امریکہ کی جانب سے بھی امن عمل پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔

اپنے خطاب میں نیٹو چیف نے کہا کہ موجودہ دور میں تنازعات دور سے نہیں لڑے جاتے بلکہ جنگ براہِ راست دروازے پر آ کھڑی ہوتی ہے۔ ان کے مطابق روس نے یورپ میں دوبارہ جنگ کو واپس لے آیا ہے اور اب نیٹو کو اس پیمانے کی جنگ کے لیے تیار ہونا ہوگا جس کا سامنا ماضی میں دادا پردادا کی نسلوں نے کیا تھا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر نیٹو اپنے وعدوں پر مکمل عمل کرے تو اس المیے کو روکا جا سکتا ہے۔

Advertisement

مارک روٹے نے خبردار کیا کہ روس آئندہ پانچ برس کے اندر نیٹو کے خلاف فوجی طاقت استعمال کرنے کے لیے تیار ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگ خاموش اطمینان کا شکار ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وقت ان کے حق میں ہے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اب تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں اور اتحادی ممالک کے دفاعی اخراجات اور فوجی پیداوار میں فوری اضافہ ہونا چاہیے۔

واضح رہے کہ جون میں نیٹو کے رکن ممالک نے 2035 تک اپنے دفاعی اخراجات مجموعی قومی پیداوار کے پانچ فیصد تک بڑھانے پر اتفاق کیا تھا، جو موجودہ دو فیصد ہدف سے دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔ یہ اضافہ طویل عرصے سے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطالبات کے مطابق ہے۔ مارک روٹے نے تسلیم کیا کہ یورپ کو کسی حد تک اپنی دفاعی ذمہ داریاں خود زیادہ سنبھالنا ہوں گی، تاہم انہوں نے امریکہ کی نیٹو سے وابستگی کو بھی اجاگر کیا۔

نیٹو چیف نے ٹرانس اٹلانٹک تعلقات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کا دفاع محفوظ بحرِ اوقیانوس کے بغیر ممکن نہیں اور بحرِ اوقیانوس کی سلامتی کے لیے نیٹو ناگزیر ہے۔ انہوں نے یہ بات ایسے وقت میں کہی جب ٹرمپ انتظامیہ نے اپنی قومی سلامتی حکمتِ عملی جاری کی، جس میں یورپ کے حوالے سے نسبتاً سخت مؤقف اختیار کیا گیا۔

مارک روٹے نے روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کے آغاز پر صدر ٹرمپ کی تعریف بھی کی۔ انہوں نے سی این این کے صحافی فریڈ پلیٹگن سے گفتگو میں کہا کہ صدر ٹرمپ وہ واحد شخصیت تھے جو روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ تعطل کو توڑ سکتے تھے۔ ان کے مطابق یوکرین کے لیے ایسی مضبوط سیکیورٹی ضمانتیں ضروری ہیں جنہیں دیکھ کر پوتن کو یہ یقین ہو جائے کہ دوبارہ جارحیت کی صورت میں ردِعمل تباہ کن ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ علاقائی معاملات پر ایک نہایت نازک اور مشکل بحث ناگزیر ہے، اور اس حوالے سے حتمی فیصلہ صرف یوکرینی عوام ہی کر سکتے ہیں۔ یورپی ممالک اس معاملے پر محتاط نظر آتے ہیں اور وہ سیکیورٹی ضمانتوں کے ساتھ ساتھ کسی بھی علاقائی رعایت پر مزید بات چیت کے خواہاں ہیں۔

دریں اثنا روس نے برطانیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس بات کی وضاحت کرے کہ یوکرین میں ہلاک ہونے والا برطانوی فوجی وہاں کیا کر رہا تھا۔ روسی حکام نے اشارہ دیا کہ برطانوی افواج کی سرگرمیاں ظاہر کردہ ذمہ داریوں سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہیں۔ اس پر برطانوی وزارتِ دفاع نے وضاحت دی ہے کہ مذکورہ فوجی یوکرینی افواج کی جانب سے ایک نئی دفاعی صلاحیت کے تجربے کا مشاہدہ کر رہا تھا اور یہ واقعہ محاذِ جنگ سے دور ایک حادثے کے نتیجے میں پیش آیا۔