’’نئی نسل کی صحافت، نئی مہارتیں — ٹوبا آلتونسکایا سے خصوصی گفتگو‘‘

آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں یورونیوذ اکیڈمی کے زیرِ اہتمام بین الاقوامی تربیتی پروگرام کا افتتاح کیا گیا، جس کا موضوع ’’ٹیلی وژن اور لائیو جرنلزم‘‘ تھا۔ اس تربیتی پروگرام میں یورونیوذ کی معروف ماہر، سینئر ملٹی میڈیا صحافی اور 14 سال سے زائد بین الاقوامی تجربے کی حامل ٹوبا آلتونسکایا نے بطور ٹرینر شرکت کی۔

آذربائیجان کی نیوز ایجنسی وائس پریس (Voicepress.az) کی نمائندہ جمیلہ چبوتاریووا نے ٹوبا آلتونسکایا سے خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کی دلچسپی کے لیے پیشِ خدمت ہے۔

(ترجمہ: اشتیاق ہمدانی)

Advertisement

سوال:

محترمہ آلتونسکایا! ہمارے ادارے کو وقت دینے کا شکریہ۔

ٹوبا آلتونسکایا:
دعوت دینے کا بہت شکریہ، مجھے خوشی ہے کہ میں آپ کے سوالات کے جواب دے رہی ہوں۔

سوال:

آپ یورونیوذ کی ایک معروف ماہر اور 14 سال سے زائد بین الاقوامی تجربہ رکھنے والی ملٹی میڈیا صحافی ہیں۔ براہِ کرم یورونیوذ کے ساتھ اپنے تجربے کے بارے میں بتائیں۔

ٹوبا آلتونسکایا:
یورونیوذ حقیقی معنوں میں ایک بین الاقوامی میڈیا ادارہ ہے۔ مجھے جنوبی امریکہ، مشرقِ وسطیٰ، یورپ اور دیگر خطوں کے صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔
یہ تنوع ہمارے لیے ایک بڑی طاقت تھا، کیونکہ اس کے ذریعے ہم عالمی مسائل کو مختلف زاویوں سے دیکھ سکتے تھے اور اکثر براہِ راست معلومات تک رسائی حاصل ہوتی تھی۔

میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے میڈیا کے اس ارتقائی سفر کو دیکھا ہے، جہاں ٹیلی وژن پر مبنی نظام ایک مکمل ڈیجیٹل نیوز روم میں تبدیل ہوا۔ مجھے جدید ٹیکنالوجی، نئے ٹولز اور مختلف ورک فلو کے ساتھ کام کرنے کا عملی تجربہ حاصل ہوا۔
یورونیوذ میرے لیے صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک ایسی درسگاہ تھا، جہاں میں ہر روز کچھ نیا سیکھتی رہی۔

سوال:

آپ مختلف ممالک میں صحافتی تربیت فراہم کرتی رہی ہیں۔ کیا ان تربیتی پروگراموں میں کوئی نمایاں فرق ہوتا ہے؟

ٹوبا آلتونسکایا:
جی ہاں، میں نے قازقستان، آذربائیجان، بیلجیم میں تربیتی پروگرام منعقد کیے، جبکہ برطانیہ میں بہت کم عمر طلبہ کے ساتھ بھی کام کیا۔

صحافت کے بنیادی اصول تقریباً ہر جگہ یکساں ہیں، خاص طور پر انٹرنیٹ اور عالمی رابطوں کی بدولت۔ تاہم، فرق زیادہ تر اندازِ تحریر، ترجیحات اور ہدفی سامعین میں ہوتا ہے۔
بین الاقوامی اور مقامی میڈیا کے ناظرین مختلف ہوتے ہیں، جس کا اثر زبان، لہجے اور مواد کے انتخاب پر پڑتا ہے۔

مزید یہ کہ ہر ملک کے میڈیا قوانین مختلف ہیں؛ کہیں زیادہ سخت اور کہیں زیادہ آزاد، جو اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ کیا شائع یا زیرِ بحث لایا جا سکتا ہے۔
میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ یورپ میں استعمال ہونے والے بعض ڈیجیٹل ٹولز دیگر ممالک میں کم معروف ہیں۔ ان نئے ٹولز اور تکنیکوں سے صحافیوں کو روشناس کرانا میرے لیے خوشی کا باعث تھا۔

چیلنجز کے حوالے سے مجھے کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا، بلکہ مختلف معاشرتی پس منظر سے تعلق رکھنے والے شاندار افراد سے سیکھنے کا موقع ملا۔

سوال:

آپ کے خیال میں آذربائیجان میں یہ تربیتی پروگرام کیسے رہے؟

ٹوبا آلتونسکایا:
آذربائیجان میں تربیتی پروگرام نہایت خوش اسلوبی سے منعقد ہوئے اور شرکاء نے انہیں بھرپور جوش و خروش کے ساتھ قبول کیا۔
یونیورسٹی کے طلبہ نے ان تربیتوں سے خاص طور پر فائدہ اٹھایا کیونکہ وہ نئی مہارتیں سیکھنے کے خواہاں تھے، جبکہ تجربہ کار صحافی پہلے ہی مضبوط بنیاد رکھتے تھے۔

ویڈیو سازی، ڈیجیٹل تحریر اور فیکٹ چیکنگ جیسے موضوعات آفاقی نوعیت کے ہیں اور ان کے لیے کسی خاص اضافی وسائل کی ضرورت نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے شرکاء ان مہارتوں کو فوراً عملی زندگی میں استعمال کر سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر، ایک شریکِ تربیت نے کلاس کے فوراً بعد ڈیٹا ویژولائزیشن پر ایک مضمون شائع کیا، جو اسی ٹول کی مدد سے تیار کیا گیا تھا جس کا تعارف میں نے دورانِ تربیت کرایا تھا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ تربیتیں محض نظری نہیں بلکہ عملی طور پر بھی مؤثر تھیں۔

بطور ترک نژاد، میں نے آذربائیجان میں خود کو اجنبی محسوس نہیں کیا۔ ہماری زبان اور ثقافت بہت حد تک مشترک ہے۔ باکو ان صاف ستھری اور محفوظ ترین دارالحکومتوں میں سے ایک ہے جہاں میں نے کبھی سفر کیا۔

سوال:

کیا کوئی ایسی بات تھی جس نے آپ کو بطور ماہر حیران کیا؟

ٹوبا آلتونسکایا:
صحافتی نقطۂ نظر سے میں نے محسوس کیا کہ بعض موضوعات پر صحافی کھل کر گفتگو کرنے میں قدرے محتاط نظر آئے، خاص طور پر یورپ کے مقابلے میں۔
جن موضوعات پر مغرب میں کھلے مباحثے ہوتے ہیں، جنوبی قفقاز کے خطے میں انہیں حساس سمجھا جاتا ہے، جہاں لوگ عموماً اپنی رائے کو محدود دائرے میں رکھتے ہیں۔

سوال:

محترمہ آلتونسکایا، اس دلچسپ گفتگو کے لیے آپ کا شکریہ۔

ٹوبا آلتونسکایا:
میں بھی آپ کی شکر گزار ہوں، اور دوبارہ ملاقات کی خوشی ہوگی۔