شمالی پاکستان کے پہاڑوں میں بھیڑیوں کی موجودگی، نایاب نسل خطرے سے دوچار
اسلام آباد(صداۓ روس)
پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں میں بھیڑیوں کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے، جو اس خطے کی قدرتی جنگلی حیات کا اہم حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ خاص طور پر گلگت بلتستان، چترال، کوہستان، استور، ہنزہ، نگر، اور دیر کے بلند و بالا جنگلات اور وادیوں میں ہمالیائی بھیڑیا پایا جاتا ہے، جو اپنی نایاب نسل کے باعث عالمی سطح پر بھی توجہ کا مرکز ہے۔ یہ بھیڑیا نسبتاً لمبے جسم اور ہلکے بھورے یا سرمئی رنگ کا حامل ہوتا ہے، اور سرد علاقوں میں رہنے کے لیے خود کو بخوبی ڈھالتا ہے۔
علاوہ ازیں، انڈین وولف کی موجودگی بھی خیبر پختونخوا کے کچھ پہاڑی اور میدانی علاقوں میں ریکارڈ کی گئی ہے۔ ان بھیڑیوں کا قدرتی شکار جنگلی ہرن، خرگوش، مارخور اور دیگر چھوٹے جانور ہوتے ہیں، تاہم بعض اوقات یہ مویشیوں پر بھی حملہ کرتے ہیں جس کے باعث مقامی آبادی میں تشویش پائی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق بھیڑیا عام طور پر انسانوں سے دور رہتا ہے، مگر اگر اسے خطرہ محسوس ہو یا بھوکا ہو تو جارحانہ رویہ بھی اختیار کر سکتا ہے۔
ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھیڑیوں کی تعداد میں کمی کا سبب جنگلات کی کٹائی، خوراک کی کمی، اور انسانوں کے ساتھ مسلسل تنازعات ہیں۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ اور دیگر ادارے اس نایاب نسل کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں، تاہم مؤثر حکومتی اقدامات اور عوامی آگاہی وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے تاکہ پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں قدرتی حیاتیاتی توازن برقرار رکھا جا سکے۔