روسی صدر نے آئندہ پانچ برسوں میں شرح پیدائش بڑھانے کا ہدف دے دیا
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کہا ہے کہ ملک میں آبادی میں کمی کو روکنے کے لیے آئندہ پانچ برسوں کے اندر شرحِ تولید کو “متبادل سطح” تک پہنچانا ضروری ہے۔ اس سطح کا مطلب ہے فی خاتون کم از کم 2.1 بچے پیدا ہونا، جو کہ بچوں کی اموات اور ان خواتین کو بھی مدنظر رکھتا ہے جو کبھی ماں نہیں بنتیں۔ پوتن نے پیر کے روز اودمورتیہ کے سربراہ الیگزینڈر بریچالوف کی طرف سے پیش کیے گئے علاقائی آبادیاتی رجحانات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا میں جانتا ہوں یہ آسان نہیں، مگر شرحِ تولید کم از کم 2.1 ہونی چاہیے۔ بریچالوف نے بتایا کہ اودمورتیہ کی موجودہ شرحِ تولید 1.39 ہے جو قومی اوسط سے بھی کم ہے، تاہم صوبے کا ہدف ہے کہ 2030 تک اسے 1.6 تک لے جایا جائے۔
روس میں شرح پیدائش میں مسلسل کمی اور آبادی میں سکڑاؤ ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔ اس رجحان پر قابو پانے کے لیے قانون سازوں نے مختلف تجاویز دی ہیں، جن میں ٹیکس میں چھوٹ، اسقاطِ حمل کی حوصلہ شکنی اور بچوں کی پیدائش پر نقد ادائیگیاں شامل ہیں۔
اسی ماہ نائب وزیرِاعظم تتایانا گولیکووا نے متنبہ کیا تھا کہ روس کو ایک “شرحِ پیدائش کے بحران” کا سامنا ہے، کیونکہ بچے جننے کی عمر کی خواتین کی تعداد تاریخی حد تک کم ہو چکی ہے اور آئندہ دہائی میں مزید کمی کا خدشہ ہے۔ اس تناظر میں حکومت نے کئی اقدامات متعارف کرائے ہیں جن میں زچگی کے فوائد میں اضافہ، بچوں کی پیدائش پر یکمشت مالی مدد، اور بڑی فیملیز کے لیے مسلسل مالی امداد شامل ہیں۔ سوویت دور کے “مدر ہیروئن” ایوارڈ کو بھی بحال کر دیا گیا ہے، جو دس یا اس سے زیادہ بچے پیدا کرنے والی خواتین کو دیا جاتا ہے۔ مزید تجاویز میں “چائلڈ فری” طرزِ زندگی کی تشہیر کو روکنے اور بڑی فیملیز کے لیے ٹیکس میں مزید چھوٹ دینے کی بات کی جا رہی ہے۔
صدر پوتن کئی بار یہ زور دے چکے ہیں کہ معاشی اور سماجی حالات کو بہتر بنانا ناگزیر ہے تاکہ خاندان بنانا ہر شہری کے لیے ایک سہل اور قابل قبول انتخاب بن سکے۔ گزشتہ سال انہوں نے ایک “صدارتی کونسل برائے خاندانی و آبادیاتی پالیسی” بھی قائم کی تھی، اور جون میں انہوں نے قومی سطح پر ایک فیملی سپورٹ سروس کے قیام کی منظوری دی۔ روس کے سرکاری ادارے “روسٹاٹ” کے مطابق 2024 میں ملک بھر میں صرف 12 لاکھ 22 ہزار بچوں کی پیدائش ہوئی، جو 1999 کے بعد سب سے کم سالانہ تعداد ہے۔ 2014 کے بعد سے شرحِ پیدائش میں ایک تہائی کمی واقع ہو چکی ہے۔