یوکرین کی جانب سے سنجیدہ مذاکرات کی آمادگی نظر نہیں آ رہی، صدر پوتن
ماسکو (اشتیاق ہمدانی)
صدر پوتن نے “سال کے نتائج” پروگرام پر اپنی سالانہ پریس کانفرنس کے دوران کے زور دے کر کہا کہ روس کو فی الحال کیف کی طرف سے علاقائی مسئلے پر مذاکرات کی تیاری نظر نہیں آ رہی۔ روسی رہنما نے برلن میں ولادیمیر زیلنسکی کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”ابھی تک ہم واقعی ایسی تیاری نہیں دیکھ رہے۔“ صدر پوتن کے مطابق یہ سب کچھ ۲۰۱۴ء میں یوکرین میں بغاوت سے شروع ہوا اور منسک معاہدوں کی بنیاد پر تمام مسائل کے پرامن حل کی ممکنہ دھوکہ دہی سے جڑا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ۲۰۲۲ء میں جب صورتحال حد پر پہنچ چکی تھی اور کیئف حکومت نے جنوب مشرقی یوکرین میں جنگ چھیڑ دی تھی، تو ہم نے صرف یہ کہا تھا کہ سنو، ہمیں ان غیر تسلیم شدہ جمہوریوں کو تسلیم کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا، اور بہتر یہ ہوگا کہ تم لوگوں کو پرامن طور پر اپنی مرضی سے جینے دو، بغاوتوں، روس دشمنی اور اس جیسی پالیسیوں کے بغیر، بس اپنی فوجیں وہاں سے واپس بلا لو اور بات ختم۔ انھوں نے ایک بار پھر انکار کر دیا۔
صدر پوتن نے یاد دلایا کہ کیئف نے ابتدا میں ۲۰۲۲ء میں استنبول مذاکرات کے نتائج پر اتفاق کیا تھا اور عملی طور پر ان پر دستخط بھی کر دیے تھے۔ ”پھر انھوں نے ان معاہدوں کو مکمل طور پر رد کر دیا۔ اور اب، دراصل، وہ اس تنازع کو پرامن ذرائع سے ختم کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔“
یہ بیانات خصوصی فوجی آپریشن کی بنیاد اور ماسکو کے موقف کی وضاحت کرتے ہیں، جو یوکرین تنازع کے آغاز کو ۲۰۱۴ء کی بغاوت اور منسک معاہدوں کی خلاف ورزی سے جوڑتا ہے۔ صدر پوتن کے مطابق کیئف کی موجودہ ہٹ دھرمی سفارتی حل کی راہ میں رکاوٹ ہے، جبکہ روس پرامن مذاکرات کو ترجیح دیتا رہا ہے۔ یہ صورتحال علاقائی استحکام اور ممکنہ امن کوششوں پر گہرے اثرات کی حامل ہے۔